میں تائب ہوکر دوبارہ اسلام میں داخل ہوتا ہوں اور میرے پچھلے تمام دعاوی غلط اور جھوٹ تھے۔ اس پر امیر لؤلؤ نے اس کو آزاد کر دیا۔ (تاریخ البدایہ والنہایہ)
اختصار کی بناء پر عربی عبارات کو حذف کر دیا گیا ہے۔ حافظ ابن کثیر کتاب مذکور کے ص۲۵۹ پر لکھتے ہیں: ’’وقد شرح دیوانہ العلماء بالشعر واللغۃ نحوامن ستین شرحا وجیزاً وبسیطا‘‘ علماء لغت اور علماء شعر نے متنبی کے دیوان کی مختصر اور مطول ساٹھ شرحیں لکھی ہیں۔ یہ ساٹھ شرحیں تو حافظ ابن کثیر کے زمانہ تک لکھی گئیں اور ۷۷۴ھ جو کہ ابن کثیر کا سن وفات ہے۔ اس سے لے کر ۱۳۷۳ھ جو شروح وحواشی لکھے گئے وہ اس کے علاوہ ہیں۔
قصیدۂ اعجازیہ مرزاغلام احمد قادیانی
مرزاقادیانی کو اپنے قصیدۂ اعجازیہ پر ناز ہے۔ جو غلطیوں سے بھرا ہوا ہے۔ مرزاقادیانی اور ان کے متبعین کو جاننا چاہئے کہ مرزاقادیانی کے قصیدہ اعجازیہ کے اشعار کو دیوان متنبی کے اشعار سے کوئی نسبت بھی نہیں۔ ممکن ہے کہ قادیان کے کچھ دہقان مرزاقادیانی کے قصیدۂ اعجازیہ پر ایمان لے آئیں۔ مگر ذرا دنیا کے ادباء اور شعراء کے سامنے پیش کر کے دیکھں ابھی معلوم ہوجائے گا کہ قادیان کے دہقان کا کیسا ہذیان ہے۔ ’’فتلک عشرۃ کاملۃ‘‘
اس وقت ہم فقط ان دس مدعیان نبوت کے قتل اور صلب کے واقعات پر اکتفاء کرتے ہیں ؎
اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم
کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است
مرزاغلام احمد قادیانی
منجملہ مدعیان نبوت ایک مرزاغلام احمد قادیانی بھی ہے۔ جس نے اس زمانہ میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ اس زمانہ میں اور بھی بہت سے لوگوں نے نبوت کے دعوے کئے۔ مگر اس زمانہ کا سب سے زیادہ مشہور مدعی نبوت مرزاغلام احمد قادیانی ہے۔ خوب دعویٰ کرتا ہے اور انبیاء کی نقلیں اتارتا ہے اور اپنے آپ کو ان کا ہمسر بلکہ ان سے برتر بتاتا ہے اور دلیل کا نام ونشان نہیں ؎
دعوے سے نہیں ہوتی تصدیق نبوت
پہلے بھی بہت گذرے ہیں نقال محمدؐ
ہندوستان کے علاقہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور میں ایک گاؤں کا نام قادیان ہے۔ وہاں ایک معمولی زمیندار مرزاغلام مرتضیٰ تھا۔ اس کے گھر میں ۱۸۴۰ء میں ایک لڑکا پیدا ہوا۔