ٓغاز کردہ نام تو رسانی بہ انتہا
پہلا باب1
ترقی کی فکر
ہمارے ناول کا سلسلہ ۱۸۶۷ء کے اخیر سے شروع ہوتا ہے۔ جب ملک پنجاب میں چیف کورٹ کا انتظام بنا ہی نیا تھا اور وکالت کے امتحان کے واسطے قانون پاس ہو چکا تھا۔ کہ اب کوئی شخص بغیر لائسنس وکالت حاصل کرنے کسی مقدمہ میں پیروکاریا مختار ہونے کا مجاز نہیں ہو گا۔
شام کا وقت ہے۔ آفتاب مغرب کی طرف جا کر منہ چھپانے لگا ہے۔ اس کی زرد شعاعیں درختوں کے پتوں پر سنہری جھلک ڈال رہی ہیں۔ کچہری ضلع کے احاطہ سے اہل مقدمہ اُٹھ اُٹھ کر شہر کی طرف رخ کئے جا رہے ہیں۔ عرائض نویس بھی اپنا اپنا بوریا بندھنا لپیٹ بغل میں بستہ قلمدان ہاتھ میں حقہ اُٹھا کر چل دئے ہیں۔
صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے کمرہ کے دروازہ پر گاڑی کھڑی ہے۔ یہ لو وہ بھی سوار ہو گئے۔ گھوڑا فراٹے بھرتا ہوا سے باتیں کرتا دم اُٹھائے اڑا جا رہا ہے۔ گاڑی نظر سے غائب:
اہلکار بھی اپنے اپنے کاغذات سنبھال بستہ باندھ چپڑاسی کے کندھے پر رکھ کوئی پیادہ کوئی سوار چل کھڑے ہوئے۔ شہر سیالکوٹ کے گوشہ غرب و شمال کی جانب کچہری سے جو سڑک شہر کو آتی ہے۔ اس کے کنارہ کنارہ ایک جوان خوبرو، خوش قطع، ثقہ صورت۔ میانہ قد، گندمی رنگ۔ بیضاوی چہرہ مختصر سے کاغذات اور ایک دو رجسٹر رومال میں لپیٹے بغل میں دبائے آہستہ آہستہ اپنے خیال سے باتیں کرتا مغموم و متفکر شکل کسی گہری فکر میں مستغرق آ رہا ہے: ’’کچھ کچھ لبوں میں ہی جنش ہے۔ کبھی کبھی ابر و پربل پڑ جاتا ہے اور گردن بھی ہل جاتی ہے۔‘‘
چلو پاس چل کر دیکھیں یہ کون ہے؟ اہل مقدمہ تو نہیں، ضرور کوئی اہلکار ہے۔ اس کی حالت بتا رہی ہے۔ کہ بہت چھوٹے عہدہ کا ملازم ہے۔ مگر عالی حوصلہ اور بلند خیالات کا انسان ہے: ’’جو عہدہ دار پاس سے گزرتا ہے اس پر نفرت اور کراہت سے نظر ڈالتا ہے۔ اپنی کم ہمتی کے مقابل کسی کا وجود نہیں سمجھتا مگر بعض کے لیے با اکراہ و جبر سلام کے واسطے ماتھے تک ہاتھ بھی اُٹھاتا ہے۔‘‘
دور سے ایک فینس آ رہی ہے۔ آٹھ کہار اٹھائے قدم حجائے ہو نہہ ہونہہ کرتے آتے ہیں۔ قریب آ کہا روں نے کندھا بدلا فینس روکی: