ہم چونکہ مرزاقادیانی کے اس قول کے پابند ہیں۔ اس لئے انشراح صدر کے ساتھ آنجناب کو کاذب بلکہ رئیس الدجالین کا خطاب عالیہ پیش کرتے ہیں۔ امید ہے مرزائی امت نبی کی پیروی کرتے ہوئے قبول فرمائے گی۔ اگر مرزائی کہیں کہ یہ بات مرزااحمد بیگ کے ڈر جانے سے ٹل گئی تو یہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی خود کہتا ہے: ’’تقدیر مبرم ہے جو کبھی نہیں ٹلتی۔‘‘
چنانچہ مرزاقادیانی خود رقمطراز ہیں: ’’میں بارہا کہتا ہوں کہ نفس پیشین گوئی داماد احمد بیگ تقدیر مبرم ہے۔ اس کی انتظار کرو۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیشین گوئی پوری نہ ہوگی اور میری موت آجائے گی۔‘‘ (انجام آتھم ص۳۱، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
کیا اب بھی مرزاقادیانی کی صداقت کا ڈھونگ رچاتے رہو گے؟ خدا کا خوف کرو اور موت کو یاد کرو۔ وہاں کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔ مرزائیو! اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن نہ بناؤ۔ جھوٹے مرزا کو نبی نہ بناؤ۔ محمدﷺ خاتم النبیین کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ۔ تاکہ دنیا میں ایمان پاؤ۔ آخرت میں جنت الفردوس کی نعمتوں سے لطف اٹھاؤ۔
اگر ان دلائل واضحہ کے بعد بھی باز نہ آؤ تو مرزاقادیانی کی لعنتوں والی کتاب گلے میں ڈال کر سیدھے جہنم جاؤ۔ ہاویہ میں خوب مزے لے لے کر غوطے لگاؤ۔ مرزاقادیانی کی اس پیشین گوئی پر حسب ضرورت بحث ہوچکی۔ اگرچہ یہ پیشین گوئی مرزاقادیانی کی تاویلات کے گورکھ دھندا سے اس قدر طویل ہو گئی ہے کہ شیطان کی آنت کی طرح سراناپید ہے۔ اب ایک اور پیشین گوئی ملاحظہ فرماویں۔
پسر موعود کی پیشین گوئی اور مرزاقادیانی کی ناکامی
مرزاقادیانی نے ایک اشتہار مورخہ ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء میں شائع کیا تھا اور اس وقت مرزاقادیانی کی بیوی حاملہ تھی۔ اس میں ایک فرزند کی پیشین گوئی کی۔ ’’خدائے رحیم کریم جو ہر چیز پر قادر ہے۔ مجھ کو اپنے الہام سے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں۔ خدا نے کہا۔ تادین اسلام کا شرف، کلام کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔ تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا، خدا کے دین، اس کی کتاب، اس کے رسول کو انکار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک کھلی نشانی ملے۔
ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ وہ تیرے ہی تخم، تیری ہی ذریت سے ہوگا۔ خوبصورت، پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اس کا نام بشیر بھی ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ اس کے ساتھ فضل ہے۔ وہ بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ علوم ظاہری وباطنی سے