ہے۔ تو براہ نوازش مطلع فرمائیں۔ اور امید کہ آپ احقر کے اشتہار ۱۳؍ربیع الاوّل ۱۳۰۹ھ کے جواب با صواب سے بھی ممنون فرمائیں گے والسلام علی من تبع الہدی۔
خاکسار آپ کا خادم محمد عبد المجید مالک مطبع انصاری
دہلی ۱۸؍اکتوبر ۱۸۹۱ء از دفتر مطبع انصاری دہلی
مرزا صاحب… بعد ملاحظہ خط ایک اشتہار مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۸۹۱ء میاں محمد صاحب کو دے کر مولوی صاحب سے کہہ دیں یہی آپ کا جواب ہے۔
راوی… ہم کو وہ اصل اشتہار باوجود تلاش نہیں ملا مگر اس کا خلاصہ جس کی سرخی یہ ہے۔
ہم تو سمجھے تھے لکھے گا کوئی بات لطیف
پر تیرا نامہ تو ایک شور کا دفتر نکلا
یہی فقرات شب و ستم جو مولانا صاحب کی نسبت ہیں۔ ہماری نظر سے گزرا خلاف تہذیب اور خارج از مطلب سمجھ کر قلم انداز کیا گیا۔
باب۲۸ بست ہشتم
مولانا عبدالمجید دہلوی سے مناظرہ
پھر شب عیش و طرب ہو وہی چرچا پھر ہووہی ساقی وہی ساغر وہی صہبا پھر ہو
آج دہلی کی جامع مسجد میں بڑا مجمع ہے۔ ایسا تو کبھی جمعہ کیا، جمعہ الوداع میں بھی نہیں ہوتا۔ مسجد کے اندر اور صحن میں سڑکوں تک آدمی ہی آدمی ہے۔ جگہ کی تنگی کے سبب نظر بھی دخل نہیں پاتی آج تو جمعہ بھی نہیں منگل ہے۔ مسلمانوں کے سوا اور قوم کے آدمی بھی نظر آتے ہیں۔ جمعہ کا تو وقت بھی گزر چکا۔ اور آدمی جمع ہیں۔ اور لوگ دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ مسٹر ہائیڈ صاحب بہادر سٹی سپرٹنڈنٹ اور سید بشیر حسین صاحب انسپکٹر اور ایک بڑی جماعت پولیس کی وردی ڈالے ہتھکڑی حمائل کیے ڈنڈا ہاتھ میں لیے موجود ہیں الٰہی خیر آج کیا ہے ٹن ٹن گھنٹہ گھر کی گھڑی نے دو بجائے۔ حضرت مسیح موعود، مہدی مسعود دو فرشتوں (حواریان) کے کاندھے پر ہاتھ کا سہارا دئیے ہوئے۔ مسجد کی سیڑھیوں پر قدم مبارک رکھا اور حواری ارد گرد چاند کے گرد ستاروں کی طرح ہجوم کیے ہوئے اوپر چڑھے (مرزا صاحب آئے کے شور کی آواز سے مسجد گونج گئی) مسجد میں داخل ہوئے اور درمیانی دائیں بائیں جانب بیٹھ گئے لوگ زیارت کے واسطے گردہیں سایہ کئے ہوئے نظر دوڑا رہے