باب۱۸ ہژدھم
سرسید احمد خان اور مرزاقادیانی
ریل کا سفر
اسٹیشن ریلوے کے پلیٹ فارم پر مسافروں کا ہجوم ہے اور کثرت اژدہام سے ٹکٹ لینے کو جگہ نہیں ملتی۔ کوئی بیخ پر بیٹھا ہوا خدمت گار کا انتظار کر رہا ہے۔ کہ اب تک ٹکٹ لے کر نہیں آیا۔ ریل نے سیٹی دی وہ آگے ایک جنٹل مین پلیٹ فارم پر ٹہل رہے ہیں۔ ایک صاحب نہایت پستہ قد لاغر اندام دبلے پتلے سادہ مزاج ثقہ وضع متبرک صورت چوغہ ڈالے قریب آئے۔ السلام علیکم!
جنٹل مین… آہا حاجی صاحب وعلیکم السلام کہاں کا ارادہ ہے۔
حاجی صاحب… دہلی جائوں گا دسمبر کی تعطیل ہے یہاں بٹالے پڑے رہنے سے کیا حاصل آپ کا ارادہ کہاں کا ہے۔
جنٹل مین… میں لاہور جائوں گا سرسید بالقابہ لیکچر دیں گے۔ میں تو سمجھا تھا کہ آپ بھی اسی جلسہ میں تشریف لے جاتے ہیں۔ لاہور راستہ میں تو پڑے ہی گا ایک مقام کرکے دہلی چلے جانا۔ یہ لطف بھی اتفاق سے حاصل ہو جائے گا۔ دیکھیے لوگ دور دور سے سفر کرکے خاص اسی ارادہ سے آئے ہوں گے۔
حاجی صاحب… حضرت میں اولڈ فیشن کا انسان ہوں ہر دیگی چمچہ نہیں جس کی رونق دیکھی کل جدید لذیذ پر عمل کیا اور اس طرف کو پھر گئے میں پرانی لکیر کا فقیر ہوں۔
جنٹل مین… مذہب میں تحقیقات ضرور چاہیے۔ بے تحقیقات اندھوں کی طرح چلنا ہم تو پسند نہیں کرتے۔
حاجی صاحب… میں اس امر میں آپ کے خلاف ہوں موافقت نہیں کرتا آخر متقدمین کیا کوئی محقق نہیں گزرا اب سرسید نے تیرہ سو سال بعد تحقیقات سے کیا ثابت کیا۔ کہ فرشتوں کا وجود نہیں حضرت عیسی مرگئے۔ جنت دوزخ موجود نہیں معجزہ کوئی چیز نہیں یا کچھ اور۔
جنٹل مین… یہ آپ کی ضد ہے انصاف نہیں۔ جب یونانی فلسفہ کی بنیاد پڑی اور اس کا دور دورہ ہوا۔ اسلام سے اس کا مقابلہ ہوا اس وقت جو اس زمانہ کے علماء اسلام تھے۔ انہوں نے خدا ان پر رحمت کرے علم کلام ایجاد کیا۔ اور اپنا دل و دماغ خرچ کرکے نہایت جانفشانی سے کتابیں لکھیں۔ بعض مسائل کو اس کے ذریعہ سے یونانی فلسفہ سے تطبیق دی اور جو فلسفہ کے اصول رکیک تھے۔ ان کو علم کلام