ان مذکورہ بالا اقتباسات سے امت کا ختم نبوت کے عقیدہ پر اجماع ثابت ہوگیا اور ہر زمانے کے علماء نے مدعی نبوت کو گردن زنی قرار دیا۔ آخر میں ہم ختم نبوت پر عقلی دلیل پیش کرتے ہیں۔
ختم نبوت کے عقلی دلائل
قدرت کے کام حکمت سے خالی نہیں ہوتے۔
جب حضور نبی کریمﷺ کی نبوت جملہ اقوام عالم کے لئے اور قیامت تک کے لئے ہے۔ جب حضورﷺ پر نازل شدہ کتاب بغیر کسی ادنیٰ تحریف کے جوں کی توں ہمارے پاس موجود ہے۔ جب سرور عالمﷺ کی سنت مبارکہ اپنی ساری تفصیلات کے ساتھ اس کتاب کی تشریح وتوضیح کر رہی ہے۔ جب کہ شریعت اسلامیہ روز اوّل کی طرح آج بھی انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں ہماری راہنمائی کر رہی ہے۔ جب قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ آج بھی اعلان کر رہی ہے۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (المائدہ:۳)‘‘ تو پھر کسی اور نبی کی بعثت کا کیا فائدہ ہے اور اس سے کس مقصد کی تکمیل مطلوب ہے۔ آفتاب محمدی طلوع ہوچکا۔ عالم کا گوشہ گوشہ اس کی کرنوں سے روشن ہورہا ہے۔ تو پھر دن کے اجالے میں کسی چراغ کو روشن کرنا قطعاً قرین دانشمندی ہے؟
مزید غور فرمائیے! نبی کی آمد کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوتی کہ نبی آیا۔ جس نے چاہا مان لیا اور جس نے چاہا انکار کر دیا اور بات ختم ہوگئی۔ بلکہ نبی کی بعثت کے بعد کفر اور اسلام کی کسوٹی نبی کی ذات بن کر رہ جاتی ہے۔ کوئی کتنا نیک، پاکباز، پارسا اور عالم باعمل ہو۔ اگر وہ کسی سچے نبی کی نبوت کو تسلیم نہیں کرے گا تو اس کانام مسلمانوں کی فہرست سے خارج کر دیا جائے گا اور کفار منکرین کے زمرہ میں اس کا نام د رج کر دیا جائے گا اور یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔
اب ذرا عملی دنیا میں مرزاقادیانی کی آمد کا جائزہ لیجئے۔ مسلمانوں کی تعداد کم سے کم اعداد وشمار کے مطابق پچاس کروڑ سے زائد ہے۔ یہ سب اﷲتعالیٰ کی توحید پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن کریم کو خدا کا کلام یقین کرتے ہیں۔ تمام انبیاء جو اﷲتعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے ان کی نبوت اور صداقت کا اقرار کرتے ہیں۔ قیامت کی آمد کے قائل ہیں۔ عملی طور پر غافل اور کامل سہی۔ لیکن احکام خداوندی اور ارشادات نبوی کے برحق ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ ضروریات دین میں سے ہر چیز پر ان کا ایمان ہے اور اس امت میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں