باب۵۱ پنجاہ و یکم
مولانا ثناء اﷲ قادیان میں
آج دعویٰ اس کی یکتائی کا باطل ہوگیا
بحث کرنے کو جو آئینہ مقابل ہوگیا
لب پر تو نہ لا وعدہ خلافی کی سخن
جھوٹا نہ کہیں جوہری اس لعل یمن کو
جاڑا ہے کہ زمہریر کا طبقہ ٹوٹ گیا ہے۔ ہوا کے سناٹے سے کان بہرے ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے تناور درخت بید کی طرح کانپ رہے ہیں۔ درختوں کے پتوں پر برف جم گئی ہے۔ ایک دوسرے سے وصلی کی کاغذ کی طرح چمٹے ہوئے بزبان حال کہہ رہے ہیں۔
جیسے کہ وصل کی شب ان سے لپٹتے ہیں ہم
یوں وصلی کے بھی کاغذ چسپاں بہم نہ ہوں گے
پرند پروں میں سر چھپائے آشیانہ میں بیٹھے ہیں۔ منہ باہر نہیں نکالتے انسانوں کی بغلوں سے ہاتھ جدا نہیں ہوتے۔ کنار دلدار کا مزہ لے رہے ہیں۔ دم تقریر دودِ جگر منہ سے نکل کر دھواں دھار ہو جاتا ہے۔ بات دم گفتار زبان سے نکل کر لبوں پر جم جاتی ہے۔ سامع کے کان تک جانے کا بار نہیں پاتی ہے۔ دانت سے دانت بجتے ہیں۔ صبح ہوگئی ہے۔ خورشید خاور حجرہ افق سے نکل آیا ہے۔ مگر ڈر کے مارے چادر کہر سے منہ چھپائے کانپ رہا ہے۔ کہر کا غبار چاروں طرف چھا رہا ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا ہو رہا ہے۔ ہاتھ سے ہاتھ مارا نظر نہیں آتا راستہ تو کیا ذکر ہے۔ انگیٹھیوں میں آگ ٹھنڈی ہوگئی ہے لوگ ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں۔ مگر حرارت نہیں آتی۔ ایک کچی سڑک پر کیچڑ میں ایک یکہ پھنسا کھڑا ہے۔ گھوڑا جان توڑ کر زور لگاتا ہے مگر پیا حرکت کیا جنبش نہیں کھاتا۔ گویا برف میں جم گیا ہے یکہ والے کی آواز کانپ رہی ہے۔ ہاتھ پائوں شل ہو رہے ہیں۔ مگر تاہم وہ کوشش کر رہا ہے۔ تین چار آدمی کالی وردی پہنے کمبل کی بارانی میں لپٹے ہوئے یکہ کو زور لگا کر دھکیل رہے ہیں مگر یکہ بھی ہلتا نہیں۔
ایک صاحب شنگرفی رنگ کی پشمینہ کی چادر سے منہ سر لپیٹے یکے کے اندر بیٹھے ہیں۔ آنکھ اور ناک سے پانی جا رہا ہے رومال سے پونچھتے پونچھتے ناک گوشت کی بوٹی کی طرح لال ہوگئی ہے۔
سپاہی… اجی حضرت مولانا صاحب! آپ کو تو کوئی ضرورت ہوگی۔ ہم غریب سپاہیوں کو ناکردہ