حاشیہ جات
۱؎ چنانچہ حضرت اقدس (مرزا صاحب) چند خادموں کے پہنچتے ہی جامع مسجد چاپہنچے چنانچہ جب انہیں (شیخ الکل صاحب) خبر ملی مرزا صاحب تیار و مستعد مسجد میں تھے تو وہ بھی وقت مقررہ سے آدھا گھنٹہ بعد بصد جبر و اکراہ آئے ٹھیک ساڑھے تین بجے تھے جب انہوں نے مسجد میں قدم رکھا اور نماز عصر کے ادا کرنے میں مصروف ہوئے حضرت اقدس اور ان کی خدام ظہر و عصر جمع کر کے باجماعت پڑھ آئے تھے۔
(بلفظ صفحہ ۷ کالم دوم ضمیمہ اخبار پنجاب گزٹ مورخہ ۱۴ نومبر ۹۱ء عن کلمہ فضل رحمانی ص ۱۱۶)
باب۲۹ بست و نہم
دہلی میں رسوائی
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با این ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
دہلی کے ہر فرد و بشر برنا و پیر اعلیٰ و اسفل صغیر و کبیر مرد و زن خاص و عام عمائد و رئوساء شہر درباری و بازاری کی زبان پر مسیح موعود کا تذکرہ ہے جہاں دیکھو یہی ذکر و اذکار ہے اور اشتہاروں نے تو وہ کام کیا کہ چار دانگ خلائق میں ہندسے لے تاشام وروم بمبئی مدراس یورپ میں دھوم مچا دی مہدی سوڈان نے گوجان دے دی۔ تمام ممالک میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ اس کو یہ شہرت نصیب نہ ہوئی اس کو فقط تعلیم یافتہ اخباروں کے شائق جانتے تھے۔ مگر ان سے جاہل و عالم ہر فرقہ کا انسان واقف ہوگیا۔ عرب عجم میں شہرت ہوگئی۔ یہ ہم نہیں کہتے کہ خیر یا شر کے ساتھ مگر شہرت میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رہا۔
اب مسیح موعود کا دہلی میں قیام ہے ایک مکان میں مختصر سا فرش ہو رہا ہے ایک مسجد پر تکیہ لگائے مسیح موعود اور چاند کے گرد ستاروں کی طرح گرد حواری موجود ہیں۔
دروازہ پر پولیس کا پہرہ کھڑا ہے۔ مکان کے گرد چند کانسٹیبل۔ کمربستہ لیس ڈنڈا ہاتھ میں لیے پھر رہے ہیں۔
مرزا صاحب… اپنے فضائل اور خوارق عادت پیشگوئیوں کا ذکر اور الہاموں کا بیان فرما رہے ہیں۔
حواری… ہاں میں ہاں ملا کر آمنا و صدقنا کا کلمہ سنا رہے ہیں۔مرزا صاحب… خوشی کے مارے پھول کر کپا ہو رہے ہیں۔