دائر ہے اور اپنے آپ کو امام باقرؓ کا خلیفہ بتلایا۔ اس کے بعد اپنی ملحدانہ دعاوی میں اضافہ کیا کہ مجھے معراج آسمانی ہوا اور اﷲتعالیٰ نے میرے سر پر اپنا ہاتھ پھیر کر فرمایا! بیٹے میری تبلیغ کرتارہ۔ اس کے بعد زمین پر اتاردیا اور کہا کرتا تھا کہ آیت خداوندی ’’وان یروا کسفاً من السماء ساقطاً یقولوا سحاب مرکوم‘‘ میرے حق میں نازل ہوئی یہ فرقہ (آج کل کے نیچریوں اور منکرین حدیث کی طرح) قیامت اور جنت ودوزخ کا منکر تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جنت سے مراد دنیا کی نعمتیں اور دوزخ سے مراد دنیا کے رنج والم اور مصائب ہیں اور ان کے نزدیک باوجود اس ضلالت کے اپنے مخالفوں کا خفیہ قتل کرنا جائز بتاتا تھا۔ یہ فتنہ جاری رہا یہاں تک کہ یوسف بن عمر ثقفی والئی عراق نے ابومنصور عجلی کو سولی پر لٹکا کر اس فتنہ کا قلع قمع کیا۔
ابوالطیب احمد بن حسین متنبی
اباالطیب احمد بن حسین کوفی جو متنبی کے نام سے ایک مشہور شاعر ہے اور جس کا دیوان دنیا میں مشہور ہے اور فن ادب کا جزو نصاب ہے۔ حمص کے قریب مقام سماوہ میں اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کچھ اہل حماقت اور اہل غبادت اس کے متبع ہوگئے۔ امیر حمص نے متنبی کو جیل خانہ میں بند کر دیا۔ بالآخر جب جیل خانہ سے دعوائے نبوت سے تحریری توبہ نامہ لکھ کر بھیجا تب رہا ہوا۔
حافظ ابن کثیرؒ (البدایۃ والنہایۃ ج۱۱ ص۲۵۷) میں لکھتے ہیں۔ اس شخص نے دعویٰ کیا میں نبی ہوں اور میری طرف وحی آتی ہے۔ جاہلوں اور سفلہ لوگوں کی ایک جماعت نے اس کو مان لیا۔ نزول قرآن کا بھی یہ شخص مدعی تھا۔ چنانچہ اس کی وحی اور قرآن کے چند جملے شہرت پاچکے ہیں۔ ’’والنجم ایسیار والفلک الدوار واللیل والنہار ان الکافر لفی خسارا مض علے سنتک واقف اثر من کان قبلک من المرسلین فان اﷲ قامع بک من الحدفی دنیہ وینہ وضل عن سبیلہ‘‘ اس قسم کے ہذیانات جیسا کہ غلام احمد قادیانی نے براہین احمدیہ میں وحی اور الہامات اکٹھے کئے ہیں) اس شخص کے بھی مشہور ہوگئے تھے۔ جس وقت اس مدعی نبوت کی خبریں اور چرچے عام ہوئے اور ایک جماعت اہل غباوت وحماقت اس کے گرد جمع ہوگئی تو حمص کے حاکم امیر لؤلؤنے اس پر چڑھائی کی اور قتال ومقابلہ کے بعد اس کے آدمیوں کو منتشر کیا اور اسے گرفتار کر کے قید وبند میں ڈال دیا۔
چنانچہ جب احمد بن حسین کافی عرصہ جیل خانے میں بیمار رہنے کے بعد ہلاکت کے قریب پہنچ گیا تو امیر نے اسے نکال کر توبہ کا مطالبہ کیا۔ اس وقت احمد بن حسین دعوائے نبوت سے تائب ہوا اور اپنے پچھلے تمام دعاوی کو جھٹلایا اور ایک تحریری توبہ نامہ شائع کیا۔ جس میں لکھا تھا کہ