کفش ہا برسرخوری ازا افترائے ناسزا
روسیہ کشتی میاں مردم قرب و جوار
اور یہ بیت اردو
اڑاتا خاک سر پر جھومتا مستانہ آتا ہےیہ کھاتا جوتیاں سر پر میرا دیوانہ آتا ہے
راقم: ابو الحسن تبتی حال وارد کوہ شملہ
(۳۱؍اکتوبر ۱۸۹۸ئ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۶۲تا۶۴)
باب۵۳ پنجاہ وسوم
مرزاقادیانی گورداسپور عدالت میں
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو وہ لہو کیا ہے
آج پھر گورداسپور کے ضلع کی کچہری کے احاطہ میں ہمارے ناول کے ہیرو حضرت امام زماں مجدد دوراں مہدی مسعود اور مسیح موعود مرزا صاحب رونق افروز ہیں۔ اور حواریان ذوالاقتدار اور رفقاء والاتبار اور صحابہ باوقار اپنے اپنے پایہ اور قرینہ پر متمکن کچھ ادھر ادھر انصرام کام میں پھر رہے ہیں۔
کچھ گفتگو ہو رہی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے۔ اور غیر بھی تماشائیوں کے طور پر تقریر دلپذیر سننے کے واسطے حلقہ کیے کھڑے ہیں۔
پہلا… (سامعین) یہاں کوئی عیسائی تو نظر نہیں آتا۔ پھر کیوں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلواتین سنائی جاتی ہیں۔ اور اگر کوئی عیسائی بھی ہوتا تو کیا ایک الوالعزم نبی کی شان میں یہ الفاظ جائز ہیں؟
دوسرا… یہ اس چودھویں صدی کے مسیح جو ٹھہرے اور کیا ذکر کریں۔
تیسرا… بھائی! رقابت جو ہوئی ان (مسیح ابن مریم) کی وفات اور نفی معجزات نہ ہو۔ تو ان (مرزا صاحب) کی فضیلت ان پر کیونکر ہوسکتی ہے اور ان کا اعتقاد اور محبت کا سکہ لوگوں کے دلوں میں کیسے جم سکتا ہے۔
چوتھا… یہ پرانے خیالات (عیسیٰ ابن مریم کی حیات الی السماء معہ بجسدہ العنصری پھر نزول)