محمد رسول اللہ صلعم کو ختم الانبیاء فرمایا اور نبوت پر مہر لگا دی اب تو حضرت عیسیٰ کی مجال ہے کہ خدا کی لگائی مہر توڑ سکے اور نہ حضرت موسیٰ کی مرزا جی بے چارے کس باغ کی مولی ہیں۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ مرزا جی کی ابلہ فریبیوں میں آئے اور ہاتھ کو سر کے گرد گھما کر ناک کو پکڑے مرزا جی عقل کے اندھوں کو جل دے کر اپنا الو سیدھا کریں۔ ہم ایسے خدا کو کہ جس کا قول اور فعل مخالف ہو ایک ناقص بے کار کم عقل خدا کہیں گے۔ کہ کہے کچھ اور کرے کچھ تیرہ سو سال تک تو نبوت کی مہر مضبوط لگائی رکھی اور تیرہ سو سال کے بعد کمال بے وقوفی سے ایک ادنیٰ ترین انسان کے واسطے اپنے قول کا خیال نہ کرکے اس مہر کو توڑ دیا ہمارا خدا تو صادق الوعد ہے دانا بینا قول کا سچا ہے جو بات کہتا ہے اس کو کبھی نہیں بدلتا اس کا قول اور فعل سوامی ہے۔ ضمیمہ اخبار شحنہ ہند مطبوعہ ۸ جون ۱۹۰۳ء
باب۳۳ سی وسوم
میرناصر کی نظم
جدا ہوں یار سے میں اور نہ ہو رقیب جدا
ہے اپنا اپنا مقدر جُدا نصیب جدا
ادھر غنچہ صبح کھلکھلایا اور خورشید خاوری نے اپنا رخ زیبا آب و تاب کے ساتھ دکھایا۔ ادھر مہر سپہر امامت و نیر اعظم افق رسالت حضرت مسیح زمان مہدی دوران حضرت اقدس جناب مرزا صاحب زنان خانہ سے برآمد ہوئے۔ مریدان عقیدت کیش حواریان خیر اندیش مصاحب و رفیق پہلے ہی سے اپنے اپنے پایہ اور مرتبہ سے ڈٹے ہوئے لیس تھے تعظیم کو کھڑے ہوگئے اور فراشی سلام ہوا۔
مصاحب… مزاج بخیر صبح کی نماز تو بیت الفکر میں ادا ہوئی۔
حواری… حضور کی خواب بھی نماز ہے جو دم ہے عبادت میں شمار ہوتا ہے ان نابکار دنیا پرست مولویوں کی نماز ریا اور شب بیداری سے حضور کی خواب ناز بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل و اولیٰ ہے۔
مرید… اس میں کیا شک ہے مردان خدا کو ہر دم وہر لحظہ قرب الٰہی حاصل ہے۔ زاہد خشک کی تمام عمر کی عبادت ان کی ایک دم کے برابر نہیں۔ اتنے میں خادمان باسلیقہ ستھری چائے کی پیالیاں نہایت خوبصورتی کے ساتھ سجائی ہوئیں سامنے لائے۔ گنگا جمنی سنھری رو پہلی کٹوریاں اور بیش بہاجر من سلور کی چمچیاں آب و تاب کے ساتھ پاس رکھی ہوئی۔ حضرت اقدس نے خاص دست مبارک سے اٹھا اٹھا رفقاء اور مصاحبین کی طرف سرکائیں ہر ایک نے شکریہ ادا کیا گھونٹ گھونٹ