رئیس… بے شک اس میں کیا کلام ہے مگر میں کچھ سوچ کر جواب دوں گا۔ اور اس بارہ میں گزارش کروں گا۔ یہ کہہ کر ہر دو صاحب باہر آئے۔
مرزا صاحب… کے چہرہ نورانی اور مبارک پر کچھ آثا رخفت اور رئیس کے چہرہ پر کچھ آثار تبسم بکنایت امیر ظاہر تھے۔رئیس… (مولوی صاحب سے خفت آمیز ہنسی کے ساتھ) مرزا صاحب بیعت ہو جانے کو فرماتے ہیں۔
مولوی صاحب… کو نہایت ندامت اس وجہ سے ہوئی کہ اہل اللہ کے خفت اسلام کی تفضیح ہے۔
اس کے بعد مولوی صاحب مرزا صاحب سے نہیں ملے اور وقت رخصت جو چندہ پچاس چالیس روپیہ کا مرزا صاحب کے لیے اکٹھا ہوا۔ وہ مسلمانوں سے مولوی تفضل حسین صاحب نے اکٹھا کیا۔ مولوی صاحب جب شریک نہ ہوئے مرزا صاحب کی اشتعال طبع اور آشفتگی خاطر کے لیے یہ مصرع موزوں ہے۔
سمند ناز کو اک اور تازیانہ ہوا
ڈاکٹر جمال الدین… مولوی صاحب سے مرزا صاحب آئے تھے کیا حالات دیکھے۔
مولوی صاحب… بھائی صاحب دکانداری ہے اور وہ بھی خوبصورتی اور خود داری کے ساتھ نہیں۔
سید احمد عرب… میں نے دو تین ہفتے قادیان میں رہ کر اس شخص کے مخفی حالات دریافت کیے ہیں۔ یہ شخص رماّل اور رماّلا نہ پیشنگویاں بذریعہ آلات نجوم کے نکالا کرتا ہے۔ اسی کا نام الہام رکھ چھوڑا ہے۔ (شفاء للناس صفحہ ۷۰، ۷۱)
حاشیہ جات
۱؎ ’’از انجملہ ایک رسالہ سراج المنیر ہے۔ جس کی نسبت ۲۰؍فروری ۱۸۸۹ء کو چند ہفتوں میں ختم کرکے چھاپنے کا اقرار کرکے صد ہا روپیہ اور بھی مسلمانان پٹیالہ وغیرہ سے وصول کرلیا لیکن رسالہ مئی ۹۷ء تک شائع نہیں ہوا۔‘‘ (اشاعت السنہ نمبر ۱ ج۱۸)
باب۱۳ سیزدہم
مرزاقادیانی اور لیکھرام
مرزا صاحب نے ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کو ایک اشتہار شائع کیا۔ جس میں سراج المنیر کی اشاعت کی بشارت اور کچھ پیشگوئیوں کا ذکر وغیرہ وغیرہ درج تھا۔ جس کا جواب پنڈت لیکھرام نے تکذیب براہین احمدیہ میں درج کیا ہے۔ وہ ہم ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔