بنا… ایسی بات تو خدا دے۔ چپڑی اور دو دو یہ تو یاروں کے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے۔ آج ہی دو چار رنڈیوں کو جو نہ ابھارا ہو۔ اور شام سے پہلے طبلہ کھڑکتا ہوا دیکھ لو میں جو بات کہوں تم اس کی تصدیق کردینا۔
چودھری…یہی میرا مطلب تھا۔ مگر یار تم سائیاں ہو۔ اسی واسطے تو میں صبح ہی تمہارے پاس آیا۔
شام کو بنا رنگریز اور للو کو بجڑہ تمام رنڈیوں میںپھر گئے۔ اور ایک نئی داستان تراش نمک مرچ لگایا۔ اور سائیں صاحب کے دربار میں بھرا ہونے لگا۔ آج منگتی اور کل عمدان، پرسوں۔ سلطانو۔ چونیہ رمضانوں روز مجرا کا نمبر لگ گیا۔ ۴ بجے شام سے آٹھ بجے رات تک اچھا میلہ ہو جاتا۔ شہر کے سرکاری خوش طبع انسان شام کو کپڑا بدل وہاں موجود ہو جاتے دو چار خوانچہ والے بھی آ جاتے اب شہر میں مہاجینوں کو بھی اس کی خبر پہنچی۔ پھر کیا تھا۔ تھالی پر تھالی آنے لگی۔ چڑھاوا چڑہنے لگا۔ چودھری للو اور بھائی بنا پانچ چھ روپیہ کے روز ٹکہ ٹٹول لے جانے لگے۔ سائیں صاحب کے کھانے کا انتظام ان کے ذمے تھا۔ مگر آخر پھوٹ پڑتے ہی پڑی۔
فقیر… کیوں جی یہ بات تو اچھی نہیں۔ جو کچھ آئے وہ سب آپ ہی لے جائیں اور ہم فقط روٹی بارا میں۔
چودھری…دیکھو سائیں ہمارا تمہارا کیا معاہدہ ہوا تھا۔ اب اگر یہ رنگ لائو گے تو آپ کی دکان پھیکی پڑ جائے گی۔ تم کو روٹی کے سوا اور کیا ضرورت ہی کیا ہے؟ مزہ سے پریوں کے درشن کرو ہمارے سر کی خیر منائو۔ ورنہ تم تو وہی ہو جو گلیوں میں ٹکڑے مانگتے پھرتے تھے۔ اور ٹکڑا نہیں ملتا تھا۔
فقیر… بگڑ کر ابے کو بخرہ تیری عقل ماری گئی ہے۔ یہ ہماری کرامات ہے۔ اور مرشد کی مہربانی اور توجہ سے رجوعات اور فتوحات ہے۔
آخر للو اور بنا کی آمدرفت بند ہوئی اور لوگوں کی آمد و رفت میں فرق آنے لگا۔ پیران نمے پرند۔ مریدان مے پرانند۔ پھر سائیں صاحب وہی ڈھاک کے تین پات رہ گئے۔ اور گلیوں میں چکر کھانے لگے۔
باب۳ سوم
لالہ بھیم سین کے ساتھ مختاری کا امتحان
سیالکوٹ سے جو امرتسر کو سڑک جاتی ہے۔ اس پر تین چار یکہ جا رہے ہیں۔ کچی سڑک ریت میں تین یکہ پھنسے ہوئے ہیں۔ گھوڑے ہیں کہ یکوں کو کھینچ رہے ہیں۔ پیئے ریت میں دھنسے