باب۲ دوم
پیری، مریدی
رات کا وقت ہے جاڑے کی موسم آسمان پر ابر چھایا ہوا ہے۔ ہوا اس سناٹے سے چل رہی ہے۔ کہ کچھ سنائی نہیں دیتا۔ مینہ کی فوار برس رہی ہے۔ جاڑے کی شدت سے لوگ باگ شام سے کواڑ بند کرکے اپنے اپنے گھروں میں منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔ امراء نے انگیٹھی روشن کر رکھی ہیں۔ کمرہ گرم ہیں لمپ کی روشنی میں گپ اڑ رہی ہیں۔ غریب اپنی گدڑی میں منہ سر لپیٹے جان کی خیر منا رہے ہیں آدمی تو کیا کسی جانور کا پتہ گلی کوچہ میں نہیں ملتا۔ ایک فقیر پھٹی کمبلی اوڑھے گلیوں میں صدا لگاتا پھرتا ہے۔ کوئی ہے جو خدا کی راہ پر بھوکے کودے۔ ہوا کے سناٹے میں کون سنتا ہے۔ اور اگر کوئی سنے بھی تو اٹھے کون۔ کوئی روٹی کا ٹکڑا نہیں دیتا۔ نہ کہیں اس بارش میں بیٹھنے کو پناہ ملتی ہے۔ ایک شخص نے اپنے مکان کا دروازہ کھولا۔
شخص… ارے بھائی تو کون ہے۔ یہ اندھیری رات جاڑے کی شدت ہوا کا زور بارش کا شور ہے۔ آدمی گھر سے باہر قدم نہیں رکھتا۔ اور تو بھیک مانگتا پھرتا ہے۔
فقیر… جس کا گھر ہو۔ وہ منہ چھپا کر بیٹھا رہے۔ صبح سے بھوکا ہوں۔ کچھ کھایا نہیں، کوئی اللہ کا بندہ ایک ٹکڑا نہیں دیتا۔ روٹی ایک طرف کہیں اتنی جگہ ہی مل جاتی کہ اس بارش میں سر چھپا کر بھوکا رات کاٹ دوں۔
شخص… آجا یہاں پڑ رہ میں روٹی لاتا ہوں۔ ڈیوڑھی کی ایک گوشہ کی طرف اشارہ کیا۔
فقیر… بابا، خدا تیرا بھلا کرے اللہ تعالیٰ نے تیرے دل میں رحم دیا ہے۔ اس نامراد نگری میں کسی نے جواب تک بھی تو نہیں دیا۔ ایسے بے رحم ناخدا ترس انسان کسی گائوں یا بستی میں نظر نہیں آئے خدا تو کسی کو یاد ہی نہیں۔
شخص… اندر گھر میں گیا اور دو روٹی اور ترکاری کا ایک پیالہ لایا۔ فقیر کو دے کر۔ لے سائیں۔فقیر… روٹی کھا کر پانی پیا۔ مالک مکان کو دعائے خیر دے کر۔ بابا تم حقہ بھی پیتے ہو۔
شخص… سائیں حقہ تو ہمارے یہاں ہو، مگر ہم تجھ کو نہیں جانتے۔ تو کون ہے اس واسطے اپنا حقہ تو نہیں دیتے۔
فقیر… بابا چلم ہی سہی ہوں تو میں مسلمان اللہ کا بندہ اور رسول کی امت۔ پر مسافرت میں کسی کی پریت نہیں۔ خدا تجھ کو جزائے خیر دے گا۔ اور اس کے عوض تیرا گھر روپیوں سے بھر دے گا۔