حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست
اس کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’میں اس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشزیوں کی تحریر نہایت سخت ہوگئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی… تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں میں جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو۔ تب میں نے ان جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کو دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے۔ تاکہ سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بدامنی پیدا نہ ہو۔‘‘ اس اقتباس سے معمولی فکر ودانش کا آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ عیسائیت اور اس کے رد میں یہ جوش وخروش مرزاقادیانی کی محض حکمت عملی تھی۔ ورنہ ان کا اصل مقصد تو صرف انگریز کی چاپلوسی کرنا اور قصیدہ خوانی کرنا تھا۔
اب میں آپ کو ایک دوسری چیز کی طرف متوجہ کرتا ہوں۔ افراد کی طرح قوموںپر بھی ادبار وانحطاط کے دور آیا کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو اپنی قوم سے قلبی انس ہوتا ہے وہ ان ناسازگار حالات میں بھی اپنی قوم کے جذبات غیرت وحمیت کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیتے۔ وہ انہیں ہر انداز سے اٹھنے اور ابھرنے پر برانگیختہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ ان میں اپنی کھوئی ہوئی عزت وآزادی کو حاصل کرنے کی امنگ کو زندہ رکھتے ہیں۔ جب بھی حالات مساعدت کرتے ہیں وہ دشمن کے خلاف جہاد کا نقارہ بجادیتے ہیں۔ اسی وقت ان کے آغوش تربیت میں پروان چڑھتے ہوئے جذبات سیلاب کی طرح امڈ آتے ہیں۔ چشم زدن میں وہ قوم جو بھیڑوں کے گلہ کی طرح بے بس اور ضعیف تھی۔ شیروں جیسی جرأت کے ساتھ دشمن پر جھپٹتی ہے اور اسے خاک میں ملا دیتی ہے اور فضائے آسمان میں ان کی عظمت کا پھریرا اونچا بہت اونچا لہرانے لگتا ہے۔ یہ کبھی نہیں دیکھا گیا ہے کہ قوم کا کوئی خیراندیش ہو اور وہ ان جذبات حیرت کو کچل دینے کے لئے اپنی ساری عمر کھپا دے اور ان کو تلقین کرے کہ تم اپنے اجنبی آقا کے قدم چاٹتے رہو اور کتوں کی طرح بے غیرتی کی زندگی بسر کرو۔ ایسا کہنے والا قوم کا دشمن ہوتا ہے۔ قوم کا غدار ہوتا ہے۔ دشمن کا ففتھ کالم ہوتا ہے۔ نبی کا مقام تو بڑا اونچا ہے۔ اسے تو ایک شریف انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے۔
اب آپ ذرا مرزاقادیانی کے دفتر پندونصائح میں سے چند نصائح دل تھام کر غور سے