اخبارات شائع کریں۔ میں بھی کوشش کروں گا۔ اور اپنے احباب کو بھی اس بارہ میں کوششیں کے واسطے تاکید کروں گا۔ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے جس قدر کتاب شائع ہوتی جائے گی۔ قیمت آتی جائے گی۔ مگر قادیان کے قیام میں بے شک آپ اس کار کو انجام نہیں دے سکتے۔ لاہور یا امرت سر کے قیام میں انشاء اللہ نہایت آسانی سے اس کا سر انجام ہو جائے گا۔
باب۷ ہفتم
سیالکوٹ کا محرم
مجری آیا محرم خون بہایا چاہیے
مرثیہ پڑھ پڑھ مجنون کو رولایا چاہیے
بازاروں میں دھماچوکڑی مچ رہی ہے۔ جدھر دیکھو غٹ غول کے غول جا رہے ہیں چاروں طرف سے ماتم کی آواز آرہی ہے۔ تعزیہ داری کی دھوم ہے گلی کوچہ میں تماشائیوں کا ہجوم ہے۔ ہمارے ناظرین کہیں گے۔ سیالکوٹ اور محرم یہ کیا۔ ایک زمانہ تھا کہ میر وزیر علی اکسٹر اسسٹنٹ کمشنر اور میر قائم حسین تحصیل دار اور میر مظہر علی سپریڈنٹ ضلع شیعہ مذہب تھے۔ پھر محرم کی دھوم دھام تعزیوں کی کثرت عزاداروں کا ہجوم اور اژدہام کیوں نہ ہو آج وہ رونق ہے کہ لکھنؤ کے محرم کا نقشہ آنکھوں میں پھر گیا۔ جو حسینؓ مظلوم کے نام سے بھی واقف نہیں وہ عزادار حسینؓ ہے۔ ماتمی لباس چہرہ اور اس جس گھر میں دیکھو گر یہ ہے زاری ہے شور ہے۔ شوق ہے ہر کہ و مہ برہنہ سر ننگے پائوں پھر رہے ہیں۔ کوئی پیک بنا ہوا ہے۔ سبز قبا برسیاہ و سفید بگیا سر ، بڑے بڑے گھونگرو کمر میں لٹکائے چھن چھن کرتا پترا بدلتا یہ گیا۔ وہ گیا ہر ایک مقام پر محفل عزا کا اہتمام ہے۔ انعقاد بزم عزا کے وقت کی خبر پہنچانا ان کا کام ہے۔ فلاں وقت سے فلاں وقت تک وہاں محفل ہو گی۔ میر ذاکر حسین صاحب مرزادیبر کے شاگرد لکھنو کے مرثیہ تحت لفظ پڑھیں گے۔ مرزا عباس علی منور سنائیں گے۔ رات ہو گئی ہے۔ محفل کی تیاریاں چاروں طرف شروع ہو گئی ہیں۔ ایک محفل برخاست ہوئی دوسری جگہ لوگ اٹھ کر جاتے ہیں۔ اور باہم گفتگو ہوتی ہے۔
۱… بھائی سماں باندھ دیا۔ مرثیہ خوانی بس لکھنو والوں کا کام ہے۔ غم کی تصویر مجسم کھڑی ہی کر دیتے ہیں۔