ہیں۔ خداوند قدوس پر جھوٹے الزام رکھتے ہیں کہ اس نے ان کو نبی بنایا اور پیغمبرﷺ کے خاتم النبیین اور ’’لا نبی بعدہ‘‘ کے منکر ہیں اور علماء کا اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ جو شخص مدعیان نبوت کی تکفیر کرنے والوں سے بھی اختلاف کرے وہ بھی کافر ہے۔ کیونکہ ان مدعیان نبوت کے کفر اور تکذیب علی اﷲ پر راضی وخوش ہے۔‘‘ (نسیم الریاض ج۴ ص۵۷۵)
۷،۸…مغیرۃ بن سعید عجلی، بیان بن سمعان تمیمی
۱۱۹ھ میں مغیرۃ بن سعید عجلی اور بیان بن سعید تمیمی نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ خالد بن عبداﷲ قسری نے جو ہشام بن عبدالملک کی طرف سے امیر عراق تھا۔ دونوں کو قتل کرکے عبرت کے لئے پھانسی پر لٹکایا اور پھر آگ کے گڑھے میں ڈال کر جلوایا۔
(تاریخ طبری ج۴ ص۱۷۴، تاریخ ابن الاثیر ج۴ ص۴۲۸)
شیخ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ ہشام کے زمانہ خلافت میں سالم بن عبداﷲ بن عمر اور نافع مولی ابن عمر اور طاؤس اور سلیمان بن یسار اور قاسم بن ابی بکر اور حسن بصری اور محمد بن سیرین اور مکحول اور عطاء بن ابی رباح اور امام باقی اور وہب بن منبہ اور سکینہ بنت حسین اور ثابت بنانی اور مالک بن دینار اور ابن شہاب زہری اور ابن عامر مقری شام وغیرہ وغیرہ یہ اکابر علماء موجود تھے اور شعراء میں جریر اور فرزوق تھے۔ (تاریخ الخلفاء ص۲۱۱)
امام عبدالقاہر بغدادی نے فرمایا ہے۔ تیسری فصل فرقہ مغیرۃ کے ذکر میں ہے۔ یہ لوگ مغیرہ بن سعید عجلی کے پیروکار ہیں۔ آگے چل کر لکھا ہے کہ مغیرہ نے کفر صریح اختیار کیا۔ مثلاً نبوت کا دعویٰ کرنا اور اسم اعظم کے علم کا مدعی ہونا وغیرہ وغیرہ اس نے اپنے مریدوں کے آگے یہ خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ اسم اعظم کے ذریعہ سے وہ مردوں کو بھی زندہ کر سکتا ہے اور لشکروں کو بھی شکست دے سکتا ہے۔
۹…ابومنصور عجلی
یہ شخص ابتداء میں رافضی تھا۔ بعد میں ملحد اور زندیق بنا اور مرزائیوں کی طرح آیات قرآنیہ میں عجیب عجیب تاویلیں کیں اور نبوت کا دعویٰ کیا۔ یوسف بن عمر ثقفی جو کہ خلیفۂ ہشام بن عبدالملک کی طرف سے عراق کا والی اور امیر تھا۔ اس کو جب اس کے عقائد کفریہ کا علم ہوا تو ابومنصور کو گرفتار کر کے کوفہ میں پھانسی پر لٹکایا۔
چنانچہ شیخ عبدالقاہر بغدادی اپنی کتاب ’’الفرق بین الفرق‘‘ میں لکھتے ہیں کہ فرقہ منصوریہ ابومنصور عجلی کے متبعین کا نام ہے۔ اس شخص کا دعویٰ تھا کہ امامت اولاد علی کرم اﷲ وجہہ میں