مذکور) الہام کے ذریعہ سے کھل گیا ہے۔ ناظرین غور کرو اور انصاف کو کام میں لائو کہ ۱۸۸۶ء کی تفصیل کی بات قادیانی الہام کو تب الہام ہوا۔ جب ۱۸۸۸ء میں وہ لڑکا فوت ہوگیا اور اس الہام کا کذب ظاہر ہو کر قادیانی کی ذلت و خواری اور رسوائی کا موجب ظاہر ہوا۔ جس سے یقینا معلوم ہوتا ہے کہ وہ الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں جو راستبازوں کا ملہم ہے وہ اپنے راستباز بندوں کو پہلے ایک مجمل اور غیربین بات کہہ کر اور اس الہام کے سبب ان کی تذلیل اور تکذیب کراکر اس کی تفصیل نہیں کیا کرتا۔ بلکہ وہ الہام شیطان کا احتلام ہے۔ اور اسی کا یہ کام ہے۔ کہ پہلے اپنے اتباع کو دھوکہ میں پھنساتا ہے پھر ان کو ذلیل کرکے ان سے کنارہ کر جاتا ہے۔ اور دشمنوں سے ان کی بے آبروئی کراتا ہے۔ جیسا اس فعل کی قران کی اس آیت میں حکایت ہے کمثل الشیطان اذقال الانسان اکفر فلما کفر قال انی بری منک انی اخاف اللہ رب العلمین وہ ہی خبیث اور ناپاک ملہم قادیانی کو ذلیل کر رہا ہے۔ ۱۸۸۶ء میں ایک بات کہہ کر اور اس کے ظاہری مضمون کا یقین دلا کر اور مدعی بنا کر اس کو ذلیل کیا پھر ۱۸۸۸ء میں اس کے دوسرے معنی بتا کر دوبارہ دشمنوں سے اس کو ذلیل کرایا مگر چونکہ قادیانی کی عقل ماری گئی ہے۔ حیا اور شرم اس سے بالکل مسلوب ہوگئی ہے۔ لہٰذا وہ اس بات کو نہیں سمجھتا اور چونکہ یہ شیطان اس کو سکھلاتا ہے۔ وہ فوراً اس کا اشتہار کر دیتا ہے اس سبز رسالہ اور دیگر اشتہارات متعلقہ پیشگوئی مذکور میں اور عجائبات ہیں مگر اس کے بیان و اظہار کے لیے نہ وقت ہے نہ اس رسالہ میں گنجائش بار زندہ و وصحت باقی۔
باب۲۳ بست و سوم
ایک مرزائی کی کہانی
یار کو ہم نے جابجا دیکھا
کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا
کہیں عابد بنا کہیں زاہد
کہیں رندوں کا پیشوا دیکھا
ایک چھوٹا سا باغ ہے۔ چار پانچ فٹ اونچے احاطہ کی دیوار چاروں طرف کچھی ہوئی ہے۔ کچھ آم و جامن وانار وغیرہ کے درخت اپنے اپنے موقع پر قرینہ اور خوبصورتی کے ساتھ اس میں کھڑے ہیں اور کچھ اراضی مزروعہ ہے۔ جس میں آلو اور گوبی وغیرہ کے ساتھ سبزی لہلہا رہی ہے۔ مغربی دیوار احاطہ سے ملی ہوئی ایک وسیع اور خوشنما مسجد بنی ہوئی ہے۔ مسجد کے صحن چبوترہ کے