تک پہنچا دئیے گئے۔ کیا ہٹ دھرمی ہے یا نہیں۔ کیا ملہم کا اپنے الہام کا معانی بیان کرنا یا مصنف کا اپنی تصنیف کے کسی عقدہ کو ظاہر کرنا تمام دوسرے لوگوں کے بیانات سے عند العقل زیادہ معتبر نہیں ہے۔ بلکہ خود سوچ لینا چاہیے۔ کہ ملہم جو کچھ پیش از وقوع کوئی امر غیب بیان کرتا ہے۔ اور صاف طور پر ایک بات کی نسبت دعویٰ کرلیتا ہے۔ تو وہ اسے اس الہام اور اس تشریح کا آپ ذمہ دار ہوتا ہے۔ اور اس کی باتوں میں دخل بے جا دینا ایسا ہے۔ جیسے کوئی کسی مصنف کو کہے کہ تیری تصنیف کے یہ معنے نہیں بلکہ یہ ہیں جو میں نے سوچے ہیں۔
اب ہم اصل اشتہار ۸ اپریل ۱۸۸۶ء ناظرین کے ملاحظہ کے لیے ذیل میں لکھتے ہیں۔ تانکہ اطلاع ہو کہ ہم نے پیش از وقوع اپنی پیشگوئی کی نسبت کیا دعوی کیا تھا اور پھر وہ کیسا اپنے وقت پر پورا ہوا۔
المشتہر: خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۴۱،۱۴۲)
باب۲۱ بست ویکم
گوگا نومی کا میلہ اور زندہ پیر کی زیارت
بھادوں کا مہینہ ہے آسمان پر ابر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس طرف سے اس طرف کو جا رہے ہیں۔ کہیں دھوپ کی تیزی بدن کو جلائے دیتی ہے بھادوں کی دھوپ جس سے ہرن کالا ہو۔ کبھی چھوٹا سا ٹکڑہ ابر کا سر پر آگیا۔ سایہ ہوگیا۔ ہوا کا جھونکا بستی میں جو مددگار رہا جان آگئی۔ کبھی حبس ہوا تو گرمی نے وہ زور دیکھا یا کہ سانس بند ہوگیا۔ پسینہ ہے کہ سر سے لے کر پائوں کے ناخن تک پہنچا ہے۔ کپڑوں سے بو آ رہی ہے۔ بٹالہ سے جو قادیان کو سڑک جاتی ہے۔ اس پر آدمیوں کا تانتا لگا ہوا ہے۔ دس دس بیس بیس چالیس چالیس پچاس پچاس کا جرگہ ابر کے ٹکڑوں کے طرح علیحدہ علیحدہ نوردی میں مصروف ہے کسی کے ہاتھ میں مور کے پروں کا مورچہل ہے کوئی ڈور بجا رہا ہے۔ ایک مرتبہ ہی ابر آیا اور برستا ہوا چلا گیا۔ لوگوں نے چاروں طرف کو دیکھا جائے پناہ نہیں پائی دھوپ نکل آئی۔ مسافروں نے اپناراستہ لیا اور شام کے قریب قادیان میں داخل ہوئے۔ وہاں میلہ کا ہجوم ہے ایک وسیع میدان میں مجمع ہے۔ ازدہام سے آدمیوں کو آدمی چیر کر نکلتے ہیں۔ تو منزل مقصود پہنچتے ہیں۔ میدان میں ایک منڈی ہے۔ …… ایک بڑے لمبے بانس