یہ بیان کیا تھا کہ فریقین میں سے جو شخص اپنے عقیدہ کی رو سے جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا سو آتھم مجھ سے پہلے مر گیا۔‘‘ کیا ہی احمقوں کی آنکھوں میں مٹی کا سرمہ ڈالا ہے۔ مرزا جی اس بات کے تو ہم بھی قائل ہیں کہ اُلوئوں کی جیب کترنے میں آپ کو کمال ہے۔ الہامات مرزا ص ۳۹۔
باب۴۱ چہل ویکم
عبداﷲ آتھم کا جلوس
میں دکھاتا تمہیں تاثیر مگر ہاتھ مرے
ضعف کے ہاتھ سے کب وقت دعا اٹھتے ہیں
اب چلیں لاہور کی بھی سیر کریں دیکھیں وہاں کیا ہو رہا ہے۔
ایک مختصر اور چھوٹا سا کمرہ شاہجہانی عمارات کا یادگار پرانی روش کا بنا ہوا نہایت سادگی کے ساتھ آراستہ کیا ہوا الماریوں کی کتابوں سے سجی ہوئی ایک دری کا فرش اس پر سفید چاندنی بچھی ہوئی۔ ایک طرف مخملی قالین اس پر ایک جانماز بچھی ہوئی اس کے اوپر مولانا ابو سعید محمد حسین صاحب رونق افروز ہیں اور ادھر ادھر دائیں بائیں اور آگے پیچھے علماء و فضلا اور طلبہ اور عمائد شہر کا مجمع ہے۔ تمام کمرہ ثقہ اور متقی مسلمانوں سے بھرا ہوا ہے۔ بحکم ع ’’جائے تنگ است و مرد ماں بسیار۔‘‘ قدم رکھنے کو جگہ نہیں ملتی۔ مولانا صاحب کے رو برو اشتہارات اور اخبارات کا ڈھیر لگا ہوا ہے بعض بعض تو ابھی کھلے بھی نہیں اسی ڈاک میں آئے ہیں اہل مجلس کے ہاتھ بھی اشتہار یا اخبار سے خالی نہیں۔
سب خاموش سکتہ کے عالم میں سرگریباں مراقبوں کی ہیئت میں بیٹھے ہیں محفل کیا شہر خموشاں ہے۔ ہر ایک سر اٹھا کر مولانا صاحب کی طرف دیکھتا ہے پھر بدستور مراقب ہو جاتا ہے۔ چندے یہی عالم سکوت رہا۔ آخر مولانا صاحب نے اس طلسم سکوت کو توڑا۔
مولانا صاحب۔ ۵، ۶ ستمبر تو گزر گئی آپ لوگ ریلوے اسٹیشن پر گئے ہوں گے مسٹر عبد اللہ آتھم فیروز پور سے آتے ہوئے گزرے تھے اور کچھ دیر ریل یہاں ٹھہرتی تھی۔
۱… میں اس وقت اسٹیشن پر موجود تھا جب فیروز پور سے گاڑی آئی تھی جس میں مسٹر عبد اللہ آتھم اور ڈاکٹر کلارک صاحب تھے۔
۲… میں بھی گیا تھا بڑا ہجوم تھا عیسائی تو عموماً لاہور کے کیا امرتسر گوجرانوالہ وغیرہ امصار قرب و جوار کے موجود تھے۔ قس علی ہذا آریہ بھی موجود تھے اور ہندو مسلمان بھی موجود تھے غرض ایک بڑا پُر رونق میلہ تھا۔ عیسائیوں میں تو عموماً نعرہ شادمانی بلند ہوئے اور قوم کے لوگ اور خصوصاً