کرکے ڈیرہ لگانا تو درکنار ان پر خوبی قسمت سے مادہ حسن ظنی تو ایسا غالب تھا کہ اس کے سبب یا غلبہ فطرت کے باعث عمدًا مکار دغا باز فریبیوں کے فریب میں بھی آ جاتے رہے اور ان کے کہنے کی تعمیل دھوکہ کھا کر بعد تجربہ بھی کرتے رہے۔ جیسے انہوں نے کئی مواقع خود بیان فرمائے ہیں۔ اور اس لیے یہ بات سب میں ان کے دوستوں تک مشہور ہے کہ ان میں مادہ مردم شناسی ہرگز نہیں ہے وہ سبھی مقامات طبیعت و مذاق پسند پر ایسا ہی کرتے رہے ہیں اور رہی بشرط زندگی خدا جانے آئندہ کیا کچھ کریں گے پھر مرزا صاحب کے پاس کچے کوٹھوں میں رہنا کیا تعجب اور انوکھی بات ہے۔
(از عصائے موسیٰ ص ۳۷۲)
باب۴۰ چہلم
عبداﷲ آتھم کا جلوس
آغوش اس کے شوق میں کب تک رہے کھلا
پھیلائے کب تک رہوں اے انتظار ہاتھ
آج صبح سے امرتسر کے ریلوے اسٹیشن پر میلہ جم رہا ہے۔ نازنینان پر پری چہرہ حورش یورپین اور کرسچین بنائو سنگار کیے ہوئے کوئی تنہاء کوئی کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دئیے ہوئے ادھر کو رخ کیے چھتری کو پکڑے ایک ہاتھ سے سایہ کو اٹھائے رف رف کرتی آ رہی ہیں سایہ کے ساتھ ہزاروں دل پامال ہو رہے ہیں کوئی کھڑ کھڑ کرتی ٹمٹم پاس سے نکل جاتی ہے کوئی پیادہ پا خرام ناز سے قدم اٹھائے چلی جاتی ہے۔ اسٹیشن کیا پر یوں کا اکھاڑہ ہے راجہ اندر کا دربار کہانیوں میں سنتے تھے آج آنکھوں سے دیکھ لیا پلیٹ فارم پر عجیب جمگٹھا قدم رکھنے کو جگہ نہیں ملتی۔
اوہو یہ تو انگریزی باجا بھی آ رہا ہے اور شہر کے بے فکرے تماشائی پرا جمائے اڑے آ رہے ہیں نہیں صاحب ان میں تو عمائد شہر اور رئیس و امراء بھی ہیں۔ مسلمانوں سکھوں آریوں سب فرقہ و مذاہب معزز اور واعظ ان میں شامل ہیں۔
آج کوئی تہوار نہ عیسائیوں کا ہے نہ اور کسی مذہب و ملت کا ۶؍ستمبر ہے آج کے دن تو کوئی عیسائیوں کا تہوار نہیں ہوتا۔
یہ ہاتھی پر کون آیا یہ تو پادری صاحب ہیں۔ خوب ہاتھی کی متک پر پھولوں کا ہار پڑا ہے بھائی یہ بات کیا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔ جو بات ہے، ہے ہی۔