مرزاقادیانی کی اہلیہ کو بھی مراق تھا۔ ’’میری بیوی کو مراق کی بیماری ہے۔ کبھی کبھی وہ میرے ساتھ ہوتی ہیں۔ کیونکہ طبی اصول کے مطابق اس کے لئے چہل قدمی مفید ہے۔ ان کے ساتھ چند خادم عورتیں بھی ہوتی ہیں اور پردے کا پورا انتظام ہوتا ہے… ہم باغ تک جاتے ہیں اور پھر واپس آجاتے ہیں۔ ‘‘
(مرزاقادیانی کا بیان عدالت مندرجہ اخبار الحکم مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۱ئ، منقول از منظور الٰہی ص۲۷۴)
میاں محمود احمد خلیفہ ثانی کو مراق
’’جب خاندان سے اس کی ابتداء ہو چکی تو پھر اگلی نسل میں بیشک یہ مرض منتقل ہوا۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی (میاں محمود احمد صاحب) نے فرمایا کہ مجھ کو بھی کبھی کبھی مراق کا دورہ ہوتا ہے۔‘‘ (مضمون ڈاکٹر شاہنواز قادیانی رسالہ ریویو قادیان ص۱۱ بابت ماہ اگست ۱۹۴۶ئ)
چونکہ علم طب کی رو سے یہ مرض موروثی بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا خلیفہ ثانی کو مراق مرزا غلام احمد سے ورثہ میں ملا اور مرزاقادیانی کی اہلیہ صاحبہ بھی مرزاقادیانی کے مراق سے متأثر ہوئیں۔ عجب نہیں کہ اکثر مرزائی بھی روحانی یا جسمانی مراق میں مرزاقادیانی سے بطور ورثہ روحانی کچھ نہ کچھ حصہ دار ہوں۔ ورنہ صحیح العقل انسان ایسے مذہب کے قریب بھی نہیں آسکتا۔
مرزاقادیانی کی سنت طعام
’’حضرت مسیح موعود صاحب کھانا کھایا کرتے تھے۔ تو بمشکل ایک پھلکا آپ کھاتے اور جب آپ اٹھتے تو روٹی کے ٹکڑوں کا بہت سا چورا آپ کے سامنے سے نکلتا۔ آپ کی عادت تھی کہ روٹی توڑتے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے جاتے۔ پھر کوئی ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈال لیتے۔ باقی ٹکڑے دسترخوان پر رکھے رہتے۔
معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسا کیوں کیا کرتے تھے۔ مگر کئی دوست کہا کرتے کہ حضرت صاحب یہ تلاش کرتے ہیں کہ روٹی کے ٹکڑوں میں کون سا تسبیح کرنے والا ہے اور کون سا نہیں۔‘‘ (خطبہ میاں محمود احمد خلیفہ ثانی مندرجہ اخبار الفضل قادیان مورخہ ۳؍مارچ ۱۹۳۵ئ) مندرجہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی روٹی کا چورا بنا کر کچھ کھالیتے کچھ چھوڑ دیتے۔ تسبیح والے ٹکڑے چن چن کر کھاتے باقی چورا پڑا رہتا۔ یعنی وہ ٹکڑے جو تسبیح نہ کرتے وہ بچ رہتے۔
غالباً مرزاقادیانی مسیح موعود نے قرآن بھی نہیں دیکھا۔ ارشادات ربانی ’’ان من شیٔ الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقہون تسبیحہم‘‘ ہر چیز اﷲ کی تسبیح پڑھتی ہے۔ مگر تم