جاتے ہیں) ہمارے دوست حکیم جنہوں نے قانون یاد کرنے کے سوا عمل بھی کئے ہیں۔ اور چلے بھی کھینچے ہیں۔ خدا نے چاہا تو وہ بھی پاس ہوں گے کیوں پنڈت صاحب۔
پنڈت نندلال صاحب… کیا حکیم صاحب نے چلے بھی کھینچے ہیں۔
لالہ بھیم سین صاحب… یہ تو ان کی لڑکپن سے عادت ہے جب کوئی بات ہوئی اور جھٹ وظیفہ شروع کر دیا۔
پنڈت موہن لعل صاحب تو یار ہمارے واسطے بھی دعا کرنا ہم نے تو قسم علم کی جو کچھ بھی یاد کیا ہو اور یاد کرتے بھی کس وقت ہم کو فرصت ہی کہاں تھی۔ مگر حکیم صاحب نے چھ ماہ کی رخصت لے کر ان میں قانون بھی یاد کیااور تسبیح بھی پھیری بھائی انہوں نے تو دعا اور دوا دونوں سے کام لیا ہے۔
لالہ رام کشن… حضرت ہمیں یاد رکھنا بھول نہ جانا۔
خواجہ عبد الصمد… نہ ہاتھوں میں طاقت نہ پائوں میں جنبش جو لیں کھینچ دامن ہم اس دلرباء کا ۔ سر راہ بیٹھے اور یہ صدا ہے کہ اللہ ہی والی ہے بے دست و پا کا۔
لالہ گوگل چند… یارو ہم تو خدا سے امید نہیں توڑتے خدا نے چاہا تو ضرور پاس کریں گے۔
ہنستی مذاق میں کچی سڑک کا راستہ طے ہوا۔ یکہ والوں نے گھوڑوں کو ملا اور مالش کر کے نہلایا بھی پانی پلایا دانہ کھلایا۔ گھاس ڈال دی ہمارے رنگیلے اور بے فکرے مسافر بھی ایک درخت کے نیچے دری بچھا آرام لینے لگے۔ جب دن ڈھلا سورج نیچے کو ہوا۔ کچھ کچھ ٹھنڈک ہوئی۔ یکہ جوڑے گئے۔ مسافر سوار ہوئے۔ دو گھنٹہ میں امرتسرداخل رات سرائے میں کاٹی۔ صبح کو ضلع کی کچہری کے احاطہ میں حاضر ہوئے ایک کمرہ میں مسٹروان صاحب اسسٹنٹ کمشنر مہتمم امتحان زیب دہ کرسی اجلاس ہوئے اور کمرہ کے اندر اور باہر برانڈہ میں امید وار بیٹھ گئے۔ ضلع گورداسپور اور امرتسر اور سیالکوٹ کے امید وار حاضر تھے۔ سوالات کئے گئے۔ جواب لکھا گیا۔ لفافہ بند کیا اور سہ بمہر اور سیدھے لاہور کو بھیج دئے اسی طرح دوسرے تیسرے دن امتحان ہوا اور کاغذات لاہور بھیجے گئے۔
باب۴ چہارم
امتحان میں ناکامی
دوپہر کا وقت ہے گرمی کا موسم کچہری کے اہلکار دھوپ میں چلتے چھتری کا سایہ سر پر کئے درختوں کے نیچے پناہ پکڑتے۔ رومال سے منہ کا پسینہ پونچتے ہوئے آ رہے ہیں۔ اور شہر میں داخل ہو گئے ہیں۔ ایک مکان کے دروازہ پر تین شخص کھڑے ہوئے چھتریوں کو بند کر کے اندر