فرمائے ہیں۔ پس اگر میں ان تینوں طوروں سے ان کی تسلی نہ کرسکا۔ یا اگر ان تینوں سے صرف ایک یا دو طور سے تسلی کی۔ تو تمام دنیا گواہ رہے کہ میں کاذب ٹھہروں گا۔ لیکن اگر میں نے ایسی تسلی کر دی۔ جس سے وہ ایمان اور حلف کی رو سے انکار نہ کرسکیں۔ ان پر وزن ثبوت میں ان دلائل کی نظیر پیش نہ کرسکیں۔ تو لازم ہوگا کہ تمام مخالف مولوی اور ان کے نادان پیر و خدا تعالیٰ سے ڈریں۔ اور کروڑوں انسانوں کے گناہوں کو بلاوجہ اپنی گردن پر نہ لیں۔‘‘
کیا مرزا جی نے اس تحریرمیں فریق مخالف کو خطاب نہیں کیا۔ یا ان سے مجلس میں دلائل طلب نہیں کیے کیا ان کو بحث کے لیے نہیں بلایا کیا قادیاں میں ۱۹۰۰ئ، ۱۸۹۶ء سے پہلے ہونے کی وجہ سے یہ تحریر منسوخ ہے؟ یا نہیں۔ تو پھر میں نے کیا بھس ملایا تھا۔ کہ مجھ کو مناظرہ تو کیا؟ زیارت سے بھی محروم رکھا۔ ہائے
وصال یار میسر ہو کس طرح ضامنؔ
ہمیشہ گھات میں رہتا ہے آسمان صیاد
ہاں یاد آیا کہ یہ تحریر ۲۵؍مئی ۱۹۰۰ء کی بھی تو اس قابل نہیں کہ اس کو پیش کیا جائے۔ کیونکہ مرزا جی نے اس کو عملی طور پر منسوخ کرکے ردی کے صندوق میں ڈال دیا ہے۔ اس لیے تو ندوۃ العلماء کے جلسہ منعقدہ امرتسر کے موقع پر ۸ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو مرزا جی کے نام ۴۳ علماء نے مشترکہ نوٹس دیا۔ تو حضور نے بغیر رسید ڈاک خانہ کے اُف تک نہیں کی۔ (الہامات مرزا)
باب۵۲ پنجاہ و دوم
ملا محمد بخش اور ابوالحسن تبتی کے خلاف بددعا
تو انم آنکہ نیاز ارم اندرون کسے
حسو درا چہ کنم کوز خود برنج درست
آج حضرت مرزا صاحب دربار برخاست کرکے صبح کی سیر سے فراغت پا کر بیت الفکر میں تنہا بیٹھے ڈاک کا جو آج ہی آئی ہے۔ ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ منی آرڈر اور روپیوں کا مقابلہ اور پڑتال اور میزان اور ٹوٹل ملا کر رکھ دئیے ہیں۔ خطوط کے ملاحظہ سے بھی فرصت پالی۔ ایک اشتہار کا ملاحظہ بڑے غور کے ساتھ ہو رہا ہے اور اس کے مضمون سے چہرہ پر تغیر محسوس ہوتا ہے۔ اشتہار کو پڑھ کر رکھ دیا۔ افسوس یہ سب فتنہ انگیزی اور کارستانی شیخ بٹالوی کی ہے اور اسی کے ایماء اور