باب۲۷ بست و ہفتم
مولانا عبدالمجید دہلوی سے خط وکتابت
تغیر وعدہ جاناں میں سو سو بار ہوتا ہے
کبھی اقرار ہوتا ہے کبھی انکار ہوتا ہے
۱۳ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو منشی غلام قادر صاحب اڈیٹر پنجاب گزٹ سیالکوٹ اور امیر علی شاہ حواریان مرزا صاحب… حضرت مولانا صاحب شیخ الکل کی خدمت میں پہنچے اور خط مرزا صاحب قادیانی کا پیش کیا۔
مولانا صاحب… مجھ کو اس قدر فرصت نہیں۔ کہ اس کو پڑھوں اور اس کا جواب دوں۔ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب اور مولوی عبد المجید صاحب کے پاس آپ لے جائیں وہ اس کو پڑھ کر جواب لکھ دیں گے۔ آپ وہی جواب مرزا صاحب کو دے دینا وہ جواب میری طرف سے تصور فرمائیں۔ موصوفین مولوی صاحبان موصوفین کے پاس گئے اور خط مذکور پیش کیا۔
خلاصہ رقعہ مرزا صاحب
۱۱؍ اکتوبر۱۸۹۱ء کے جلسہ میں بوجہ خوف میں حاضر نہ ہوسکا۔ اب پولیس وغیرہ کا میں نے اپنے طور پر انتظام کرلیا ہے۔ ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو آپ گفتگو کے واسطے تیار رہیں۔
مولانا صاحب کی طرف سے حاشیہ جواب خط پر تحریر ہوا۔ میری طرف سے آپ کی تحریر کا جواب مولوی ابو سعید صاحب اور مولوی عبد المجید صاحب دیں گے۔ مجھ کو اپنے خطاب سے معاف رکھیں۔جواب خط کہ مرزا صاحب
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ نصلی علی رسولہ الکریم! از خاکسار عبد المجید بخدمت گرامی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی زادہ لطفہ بعد سلام کہ حمیت اسلام ہے واضح رائے عالی ہو۔ آپ کا رقعہ مورخہ ۱۴؍اکتوبر ۱۸۹۱ء خدمت میں حضرت شیخنا و مولانا شیخ الکل مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب پہنچا حسب الحکم جناب ممدوح جواب اس کے گزارش ہے کہ اس کو دیکھ کر کمال حیرت و تعجب اور افسوس اور غیرت جناب کے حال سے ہوئی۔ آپ تو اپنی تضیع اوقات اس خیال میں ایک مدت سے کر رہے ہیں۔ اور اب اور بندگان خدا کی بھی اوقات عزیز