چار پانچ گھنٹہ یہ ہنگامہ رہا۔ شام کے قریب امام صاحب (کربلا جہان تعزیہ دفن ہوتے ہیں) میں تعزیہ پہنچنے۔ گڑھا کھودا گیا۔ اور تعزیہ دفن کئے گئے۔ اس موقع پر امام صاحب کا عرس ہوتا ہے۔ کچھ محرم کی دھوم کچھ میلہ کا ہجوم قابل دید تھا۔ نہ لائق شنید کوسوں تک آدمی ہی آدمی تھا۔
باب۸ ہشتم
مولوی عبداﷲ صاحب غزنوی کا دربار
ایک بزرگ، خضر صورت، فرشتہ خصلت، سرخ و سفید رنگ، لال لال بڑی بڑی ہرن کی سی آنکھیں۔ نورانی چہرہ رعب دار۔ سفید ریش، کشیدہ قامت حب دنیا سے دل خالی یاد الٰہی میں سر گرم دنیا سے ہاتھ اُٹھاتا ہے۔ خدا سے لو لگائے۔ ایک مسجد میں مصلیٰ بچھائے ممبر سے سہارا لیے بیٹھا ہے۔ ارد گرد صوفیاء اور طلباء کا مجمع ہے۔ پیرو امیر و فقیر حلقہ کئے ہوئے جیسے چاند کے گرد ہالہ میں بیٹھے ہیں۔ کوئی حدیث کا درس لیتا ہے۔ کوئی قرآن کا ترجمہ پڑھتا ہے کسی طرف متوجہ ہوئے ہر ایک استفتار حال فرما سائل کا جواب دے رہے ہیں۔ کوئی کسی مسئلہ میں استفتا کرتا ہے۔ کوئی حاجت روائی کی دعامانگتا ہے۔ ہر ایک کو جو اب با صواب دے کر تشفی فرماتے ہیں۔ موذن نے نماز عصر کی اذان دی۔ صدائے اللہ اکبر کی آواز سنتے ہی سب اپنا اپنا کام چھوڑ کر کتابوں کو طالب علم غلاف کر کے نماز کے واسطے آمادہ ہو گئے۔ وضو کی تیاریاں کرنے لگے۔ اقامت کہی گئی۔ جماعت کے ساتھ نماز ادا ہوئی بعد انفراغ نماز و دعا پیر مرد (بزرگ موصوف) نے کچھ کلمات بطور وعظ زبان فیض ترجمان سے فرمائے کچھ دیرقال اللہ و قال الرسول کا ذکر رہا پھر صحن مسجد میں بطور چہل قدمی ٹہل رہے تھے۔ ایک مسافر تازہ وارد قطع و وضع سے جو متوسط درجہ کا انسان معلوم ہوتا ہے۔ وارد ہوا۔
مسافر… سلام علیکم!
بزرگ… و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
مسافر نے آفتابہ پانی کا لیا۔ وضو کرکے نماز ادا کی۔ ایک گوشہ مسجد میں بیٹھ گیا۔
اخون صاحب… (وہی بزرگ) فارسی زبان میں جوان کی مادری زبان تھی) تم مسافر معلوم ہوتے ہو۔
مسافر… حضرت کا قیاس درست ہے۔ آہا یہ تو ہمارے ناول کے ہیرو حکیم صاحب ہیں۔ یہاں کہاں۔
اخون صاحب… آپ کا کیا نام ہے اور کہاں رہتے تھے۔
مسافر… مجھے غلام احمد کہتے ہیں۔ اور گوداسپور کے ضلع میں ایک موضع قادیان ہے وہاں رہتا ہوں۔