ہو۔ اس طرح مسلمان غلامی کے جال میں پھنس کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مفلوج ہو جائیں۔‘‘
علامہ اقبالؒ نے خوب کہا ہے ؎
دولت اغیار را رحمت شمرد
رقص ہاگرد کلیسا کرد مرد
اب بحث طلب امر یہ ہے کہ مرزاقادیانی کی تنخواہ کیا تھی اور کن ذرائع سے ملتی تھی۔ وہ بھی مرزاقادیانی کی زبانی سنیں۔ مرزاقادیانی نے اس تنخواہ کا بھی خود اعتراف کرلیا ہے۔
اب مرزاقادیانی کی کتابوں میں جابجا یہ آئے گا کہ مجھے الہام ہوا کہ اتنا روپیہ ملا ہے۔ پھر دوسرے دن مل گیا۔ اکثر کے متعلق یہ بھی معلوم نہ ہوتا۔ کس نے بھیجا ہے۔ تاہم بعض اوقات معلوم ہوجاتا وہ اکثر نوابوں کی طرف سے ہوتا یا کسی سرکاری ملازم کی طرف سے۔ یہ کس کو معلوم نہیں کہ ایسے ہی لوگ انگریز کے جاسوس ہواکرتے تھے۔ البتہ مرزاقادیانی کا کمال یہ ہے کہ ان کو انگریز کے ایما پر مرید بنالیا تھا۔ بعض سادہ لوح بھی پھنس گئے۔
تنخواہ کی برآمدگی
مرزابشیراحمد لکھتے ہیں: ’’مرزا دین محمد ساکن لنگر وال ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ مسیح موعود نے مجھے صبح کے وقت جگایا اور فرمایا کہ مجھے خواب آیا ہے۔ میں نے پوچھا کیا خواب ہے؟ فرمایا میں نے دیکھا ہے کہ میرے تخت پوش کے چاروں طرف نمک چنا ہوا ہے۔ میں نے تعبیر پوچھی تو کتاب دیکھ کر فرمایا کہ کہیں سے بہت سا روپیہ آئے گا۔ اس کے بعد میں چاردن وہاں رہا۔ میرے سامنے ایک منی آرڈر آیا۔ جس میں ہزار سے زیادہ روپیہ تھا… ہم نے دیکھا تو بھیجنے والے کا پتہ اس پر درج نہیں تھا۔ حضرت صاحب کو بھی پتہ نہیں لگا کہ کس نے بھیجا؟‘‘ (سیرۃ المہدی ج۳ ص۱۰۱،۱۰۲، روایت نمبر۶۳۶)
مندرجہ بالا عبارت میں تین چیزیں قابل غور ہیں۔ ایک خواب، دوسرا کتاب۔ دیکھ کر تعبیر، تیسرا بھیجنے والے کا پتہ نہ معلوم ہونا۔
آپ نے خواب اس لئے مرید سے بیان کیا تاکہ آئندہ کام آئے اور مرید گواہ رہے۔ کیونکہ اس کو آئندہ نشان کے طور پر ظاہر کرنا تھا۔ پھر کتاب دیکھ کر تعبیر بتلانا یہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہو۔ اس طرح مسلمان غلامی کے جال میں پھنس کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مفلوج ہو جائیں۔‘‘
علامہ اقبالؒ نے خوب کہا ہے ؎
دولت اغیار را رحمت شمرد
رقص ہاگرد کلیسا کرد مرد
اب بحث طلب امر یہ ہے کہ مرزاقادیانی کی تنخواہ کیا تھی اور کن ذرائع سے ملتی تھی۔ وہ بھی مرزاقادیانی کی زبانی سنیں۔ مرزاقادیانی نے اس تنخواہ کا بھی خود اعتراف کرلیا ہے۔
اب مرزاقادیانی کی کتابوں میں جابجا یہ آئے گا کہ مجھے الہام ہوا کہ اتنا روپیہ ملا ہے۔ پھر دوسرے دن مل گیا۔ اکثر کے متعلق یہ بھی معلوم نہ ہوتا۔ کس نے بھیجا ہے۔ تاہم بعض اوقات معلوم ہوجاتا وہ اکثر نوابوں کی طرف سے ہوتا یا کسی سرکاری ملازم کی طرف سے۔ یہ کس کو معلوم نہیں کہ ایسے ہی لوگ انگریز کے جاسوس ہواکرتے تھے۔ البتہ مرزاقادیانی کا کمال یہ ہے کہ ان کو انگریز کے ایما پر مرید بنالیا تھا۔ بعض سادہ لوح بھی پھنس گئے۔
تنخواہ کی برآمدگی
مرزابشیراحمد لکھتے ہیں: ’’مرزا دین محمد ساکن لنگر وال ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ مسیح موعود نے مجھے صبح کے وقت جگایا اور فرمایا کہ مجھے خواب آیا ہے۔ میں نے پوچھا کیا خواب ہے؟ فرمایا میں نے دیکھا ہے کہ میرے تخت پوش کے چاروں طرف نمک چنا ہوا ہے۔ میں نے تعبیر پوچھی تو کتاب دیکھ کر فرمایا کہ کہیں سے بہت سا روپیہ آئے گا۔ اس کے بعد میں چاردن وہاں رہا۔ میرے سامنے ایک منی آرڈر آیا۔ جس میں ہزار سے زیادہ روپیہ تھا… ہم نے دیکھا تو بھیجنے والے کا پتہ اس پر درج نہیں تھا۔ حضرت صاحب کو بھی پتہ نہیں لگا کہ کس نے بھیجا؟‘‘ (سیرۃ المہدی ج۳ ص۱۰۱،۱۰۲، روایت نمبر۶۳۶)
مندرجہ بالا عبارت میں تین چیزیں قابل غور ہیں۔ ایک خواب، دوسرا کتاب۔ دیکھ کر تعبیر، تیسرا بھیجنے والے کا پتہ نہ معلوم ہونا۔
آپ نے خواب اس لئے مرید سے بیان کیا تاکہ آئندہ کام آئے اور مرید گواہ رہے۔ کیونکہ اس کو آئندہ نشان کے طور پر ظاہر کرنا تھا۔ پھر کتاب دیکھ کر تعبیر بتلانا یہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ