وہ زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چودہ سو برس بعد تھا۔ کہ مسیح ابن مریم یہودیوں کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا تھا۔ (ص۶۷۵، خزائن ج۳ ص۴۶۴) پر یہی اقرار ہے۔ بلکہ قرآن شریف کا حوالہ بھی دیا ہے۔ کہ قرآن شریف نے مسیح کے نکلنے کے چودہ سو برس تک مدت ٹھہرائی ہے۔ (عربی قرآن میں تو نہیں کہیں اس قرآن میں تو نہیں جس میں قادیان کا نام ہے؟)
مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ میں دنیا کی پیدائش سے الف ششم یعنی چھٹے ہزار میں آیا ہوں چنانچہ لکھتے ہیں۔ ’’اس وقت مثل مسیح کی سخت ضرورت تھی اور ہزاروں ملائکہ جو زندہ کرنے کے لیے اترا کرتے ہیں حاجت تھی اور حضرت آدم کی پیدائش کے حساب سے الف ششم کا آخری حصہ آگیا سو ضرور تھا کہ اس چھٹے (الف میں) آدم پیدا ہوتا۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے اس عاجز مثیل مسیح اور نیز آدم الف ششم کرکے بھیجا‘‘ مخلصاً ازالہ ۱۵۵ ایضاً ۶۹۲ اس کی نقیض اس کا خلاف ہے۔ سنیے پہلے اپنی رسالت اور نبوت اور تشریف آوری کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’طاعون جو ملک میں پھیلا ہے کسی اور سبب سے نہیں بلکہ ایک سبب سے ہے وہ یہ کہ لوگوں نے خدا کے اس موعود کے ماننے سے انکار کیا ہے۔ جو تمام نبیوں کی پیشگوئیوں کے موافق دنیا کے ساتویں ہزار میں ظاہر ہوا ہے۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۲، خزائن ج۱۸ ص۲۳۲)
اگر کسی کو شبہ ہو کہ چھٹے ہزار اخیر اورساتویں کے شروع میں مرزا جی تشریف لائے ہوں گے اس لیے دونوں ہزاروں کو شمار میں لے لیا تو ایسے صاحبوں کے سمجھانے کو بھی مرزا صاحب کی عبارات موجود ہیں۔ (ازالہ ص۳۱۲، خزائن ج۳ ص۲۵۹) پر لکھتے ہیں کہ ’’دنیا کی عمر آنحضرتﷺ کی بعثت کے وقت ۴۷۴۰ تھے۔‘‘ اور پھر (ص۱۸۵، خزائن ج۳ ص۱۸۹) کی عبارت جو اوپر درج ہوئی۔ کہ میں پورے تیرہ سو برس بعد آنحضرتؐ کے آیا۔ اب دونوں عبارتوں کے ملانے سے ۴۷۴۰+۱۳۰۰۴۱۲= ۶۰۵۳ مرزا صاحب کی بعثت کے ۶۰۵۳ ہوتے ہیں۔
ضمیمہ اخبار شحنہ معہ مطبوعہ ۲۳ جون و یکم جولائی ہفوات مرزا۔
باب۲۵ بست و پنجم
شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین سے اڑنگا
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہرپیکر تصویر کا
خوب ایک عرصہ سے یہ شعر حل طلب تھا۔ لوگوں نے بڑے بڑے زور لگائے طبع