بس وہ کافی۔ اور غرض ہماری اس بیان سے یہ ہے کہ صبر اور تقویٰ اور توکل جس کو حاصل ہو جائے اس کے واسطے اللہ کافی ہے۔ اور استغفار کی مداومت سے یہ باتیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ اور اس کا کوئی کام نہیں رہتا۔ جو دنیا چاہے گا اللہ تعالیٰ دنیا دے گا۔ اور جو آخرت چاہے گا اس کو آخرت دے گا۔ اور دنیا میں بھی برکت دے گا۔ من کان یرید حرث الاخرۃ نزد لہ فی حرثہ و من کان یرید حرث الدنیا نوتہ منھا و ما لہ فی الاخرۃ من نصیب
مرزا صاحب کی طرف متوجہ ہو کر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اور اس کے توکل سے چنگل مارو اس سے بہتر کوئی عمل کوئی وظیفہ فتوحات اور رجوعات کے واسطے نہیں۔
چوں از و گشتی ہمہ چیز از تو گشت
سورج نکل آیا چار رکعت نماز نفل پڑھ کر زنان خانہ میں تشریف لے گئے مرزا صاحب رخصت ہوئے۔
باب۹ نہم
لاہور کی چنیاں والی مسجد
مسجد کے صحن میں چند صاحب صالح صورت نیک سیرت علماء و فضلاء کا مجمع ہے۔ ان کی قیل وقال اور صورت و حال سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہ صاحب حمایت اسلام اور ترقی دین خیرا نام میں ہمہ تن سر گرم ہیں۔ ایک طرف مولانا ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی تشریف رکھتے ہیں۔ ان کے برابر مرزا غلام احمد صاحب قادیانی رونق افروز ہیں۔ ارد گرد دائیں بائیں سامنے اور بہت صاحب جمع ہیں کچھ عالم معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ طالب علم۔
مرزا صاحب کچھ اخبار سا دیکھ رہے ہیں۔ ایک اشتہار پر نظر پڑی۔ کسی دوائی کی تعریف میں کالم کے کالم سیاہ۔ خدائی کا دعویٰ مسیحائی معجزہ کا ادعا بیمار کا اچھا ہونا تو کیا ایک معمولی بات ہے۔ صدسالہ مردہ ایک قطر ہ منہ میں ڈالنے سے زندہ ہو جائے۔ اگر زندہ کھالے موت کے ذائقہ سے کبھی آگاہی نہ ہو۔ مسکرا کر مولوی صاحب کو مخاطب کر کے کمال کیا ہے ۔ کوئی لفظ اور کلمہ تعریف کا باقی نہیں چھوڑا۔
مولوی صاحب… آپ نے ایک اشتہار دیکھ کر حیرانی ظاہر کی ہے۔ جناب کوئی اخبار اور کتاب آپ نہ دیکھیں گے۔ جس میں کسی نہ کسی شے کا اشتہار نہ ہو۔ پہلے انگریزی کارخانوں میں یہ دستور تھا۔ اب نئی تعلیم کا اثر ہندوستان میں ہو گیا ہے۔ اُردو اخباروں کی روز بروز ترقی ہے۔ اور تہذیب