بیگ کی بھانجی بیاہی ہوئی تھی۔ اس لئے مرزاقادیانی نے اپنی بہو کے والد پر زور دیا کہ وہ محمدی بیگم کا رشتہ سلطان محمد سے نہ ہونے دے۔ بلکہ مجھ سے کرادے۔ ورنہ تمہاری لڑکی کو طلاق دلوادوں گا۔ اسی طرح عزت بی بی سے اس کی والدہ کو خط لکھوائے کہ: ’’مجھے رسوائی طلاق سے بچاؤ۔ (مرزاقادیانی کا عشق تھمتا نظر نہیں آتا) ورنہ مجھ کو یہاں سے لے جاؤ۔‘‘ پھر آخر یہ ہی ہوا۔ بیچاری کو طلاق بھی دلوادی۔
اگر میں یہاں سارے خط درج کروں تو ایک بہت بڑی کتاب بن جائے گی۔ تاہم میں بعض خط درج کرتا ہوں اور بعض کا خلاصہ لکھوں گا تاکہ ان کو مرزاقادیانی کا جنون زن معلوم ہو جائے اور معلوم ہو کہ نبوت کاذبہ کی دکان چمکانے کے لئے کس قدر پاگل بن رہے ہیں۔
عزت بی بی کا خط بحکم مرزاقادیانی
یہ مرزاقادیانی کے چھوٹے لڑکے کی اہلیہ ہیں۔
’’سلام مسنون کے بعد اس وقت میری تباہی وبربادی کا خیال کرو۔ مرزاصاحب مجھ سے کسی طرح فرق نہیں کرتے۔ اگر تم اپنے بھائی، میرے ماموں (یعنی محمدی بیگم کے والد) کو سمجھاؤ تو سمجھا سکتی ہو۔ اگر نہیں تو پھر طلاق ہوگی اور ہزار طرح کی رسوائی ہوگی۔ اگر منظور نہیں تو خیر، مجھے اس جگہ سے لے جاؤ۔ پھر میرا ٹھہرنا اس جگہ مناسب نہیں۔‘‘
(بے چاری ٹھیک کہتی ہے۔ ایسے بوڑھے شہوت پرستم، لالچی کے پاس ٹھہرنا یقینا خطرناک ہے جو انتقام کی آگ میں جل رہا ہو)
اسی خط پر مرزاقادیانی ریمارک کر رہے ہیں۔ ’’اگر نکاح نہیں رک سکتا تو پھر بلاتوقف عزت بی بی کے لئے کوئی آدمی قادیان میں بھیج دو۔ تاکہ ان کو لے جاوے۔‘‘ (بہت خوب خدا نے جو وعدہ کیا تھا کہ ہر روک دور ہوگی)
عزت بی بی بذریعہ خاکسار غلام احمد رئیس قادیان۔ مورخہ ۴؍مئی ۱۸۹۱ئ۔
(کلمہ فضل رحمانی)
دیکھا نبی کا عدل، لڑکی وہ نہیں دیتے اور غصہ عزت بی بی پر نکال رہے ہیں۔ دیکھا نبی کا عدل، واہ رے واہ۔
غالب نے خوب کہا ؎
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے