شک اس کی نظیر نہیں کیونکہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی کسی مسلمان کا ضمیر اس قدر نور ایمان سے خالی نہ تھا کہ وہ رسول اکرمﷺ کے فرمان کی صریح خلاف ورزی کرتا۔ یہ فضیلت صرف مرزاقادیانی کو حاصل ہوئی۔ نمک خواری کا حق یوں ایمان دے کر بطریق احسن ادا کیا۔ واقعی استقامت اسی کو کہتے ہیں۔ محسن ا شکریہ اسی طرح ادا کیا جاتا ہے۔
سب کی سب ضائع اور برباد نہ جائیں
’’اس لئے اندیشہ ہے کہ ان کے ہر روز کی مفتریانہ کاروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بدگمانی پیدا ہوکر وہ تمام جانفشانیاں پچاس سالہ میرے والد مرحوم اور نیز میرے قلم کی وہ خدمات جو میرے اٹھارہ سال کی تالیفات سے ظاہر ہیں۔ سب کی سب ضائع اور برباد نہ ہو جائیں اور خدانخواستہ سرکار انگریزی اپنے ایک قدیم وفادار اور خیرخواہ خاندان کی نسبت کوئی تکدر خاطر اپنے دل میں پیدا کرے۔‘‘ (کتاب البریہ ص، خزائن ج۱۳ ص۳۴۹)
خودکاشتہ پودا
پھر اس کے بعد مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں: ’’التماس ہے کہ سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چھٹیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے۔‘‘
(کتاب البریہ ص، خزائن ج۱۳ ص۳۵۰)
مندرجہ بالا عبارت واضح طور پر مرزاقادیانی کی سیاسی زندگی پر روشنی ڈال رہی ہے۔ مرزاقادیانی اعتراف کرتے ہیں کہ میرا خاندان ہی نہیں بلکہ میں خود بھی مدت مدید سے سرکار انگلشیہ کی خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔ بلکہ میں سرکار کا خود کاشتہ پودا ہوں۔ لہٰذا آبیاری کا خیال رکھنا کہیں خود کاشتہ پودہ عدم توجہی کا شکار ہوکر نیست ونابود نہ ہو جائے۔
اپنے تمام سرکاری حکام سے خصوصیت سے آبیاری کے متعلق فرمان جاری کیا جاوے۔ ورنہ بصورت دیگر صحیح خدمات سرانجام دینادشوار ہو جائیں گی۔ مذکورہ بالا عبارت کے بعد مرزاقادیانی کے بارے میں کسی طرح کاشبہ نہیں رہتا۔ بلکہ بالکل عیاں ہوجاتا ہے کہ مرزاقادیانی کی نبوت کی بنیاد انگریزی پالیسی کا ایک جز ہے۔