کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں… میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں اور مہدی خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)
علامہ اقبال مرحوم نے خوب فرمایا ؎
گفت دیں را رونق از محرومی است
زندگانی از خودی محرومی است
سترہ برس سے انگریز سرکار کی امداد
’’تاہم سترہ برس سے سرکار انگریز کی امداد اور تائید میں اپنی قلم سے کام لیتا ہوں۔ اس سترہ برس کی مدت میں جس قدر میں نے کتابیں تالیف کیں۔ ان سب میں سرکار انگریز کی اطاعت اور ہمدردی کے لئے لوگوں کو ترغیب دی اور جہاد کی ممانعت کے بارے میں نہایت مؤثر تقریریں لکھیں اور پھر میں نے قرین مصلحت سمجھ کر اس امر، ممانعت جہاد کو عام ملکوں میں پھیلانے کے لئے عربی، فارسی میں کتابیں تالیف کیں۔ جن کی چھپوائی اور اشاعت پر ہزارہا روپیہ خرچ ہوئے اور وہ تمام کتابیں عرب اور بلاد شام اور روم اور مصر اور بغداد اور افغانستان میں شائع کی گئی… پھر میں پوچھتا ہوں کہ جو کچھ میںنے سرکار انگریز کی امداد امن اور جہادی خیالات کے روکنے کے لئے برابر سترہ سال تک پورے جوش سے پوری استقامت سے کام لیا۔ کیا اس کام کی اور اس خدمت نمایاں کی اور اس مدت دراز کی دوسرے مسلمانوں میں جو میرے مخالف ہیں کوئی نظیر ہے؟‘‘ (کتاب البریہ ص۶تا۸، خزائن ج۳ ص ایضاً)
مرزاقادیانی کی مندرجہ بالا دونوں عبارتوں سے عیاں ہے کہ آنجناب کی عمر کا اکثر حصہ انگریز کی مدح سرائی بلکہ انگریز کی آقائی کو تسلیم کروانے میں گزرا ہے۔ پچاس الماریاں کتابیں لکھ ڈالیں۔ پھر تمام ممالک میں پھیلا دیں۔ بڑی رقم خرچ ہوئی۔ نہایت استقامت سے یہ خدمت سرانجام دی۔
غالباً مسیح موعود کی بعثت اسی لئے ہوئی کیونکہ دین تو پہلے ہی مکمل تھا۔ اگر کوئی کمی تھی تو صرف یہ کہ کفار کی اطاعت سے دین اسلام نے منع کیا تھا اور اس حکم کو آنجناب نے منسوخ کر دیا اور بس۔ اگر اب بھی انگریز مرزاقادیانی کو سرکار کا پجاری تسلیم نہ کریں تو صریح ظلم ہوگا۔
مرزاقادیانی نے یہ بھی درست فرمایا کہ دیگر مسلمانوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں۔ بے