پر ان کے پولیٹکل ایجنٹ کی حیثیت سے مسلمانوں کی جاسوسی کا فریضہ انجام دینے لگے۔ بلکہ آنجناب مہدی وعیسیٰ کے روپ میں کھلے بندوں انگریز کی غلامی کی تعلیم دینے لگے۔
رہا مہدی کا ڈھونگ اس لئے رچایا تاکہ لوگوں کو یہ شبہ نہ ہو کہ مرزاقادیانی جاسوس اور انگریزی ایجنٹ میں ورنہ مقصد اور تھا۔
مرزاقادیانی کی عبارتیں ہمیں بتلاتی ہیں کہ مرزاقادیانی کی تمام سعی وتبلیغ صرف انگریزی راج قائم کرنے کے لئے ہیں۔ مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد نکالنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی ایک تجویز بدیں صورت پیش کرتے ہیں۔ یہ تجویز (براہین احمدیہ حصہ سوئم ص۱۳۹،۱۴۰، خزائن ج۱ ص ایضاً) میں اسلامی انجمنوں کی خدمت میں التماس کے زیرعنوان درج ہے۔
’’سو اس عاجز کی دانست میں قرین مصلحت یہ ہے کہ انجمن اسلامیہ لاہور، کلکتہ، وبمبئی وغیرہ یہ بندوبست کریں کہ چند نامی مولوی صاحبان جن کی فضیلت اور علم اور زہد اور تقویٰ اکثر لوگوں کی نظر میں مسلم الثبوت ہو۔ اس امر کے لئے چن لئے جائیں کہ اطراف واکناف کے اہل علم کو جو اپنے مسکن کے گردونواح میں کسی قدر شہرت رکھتے ہوں۔ اپنی اپنی عالمانہ تحریریں جن میں برطبق شریعت حقہ، سلطنت انگلشیہ سے جو مسلمانان ہند کی مربی ومحسن ہے۔ جہاد کرنے کی صاف ممانعت ہو۔ ان علماء کی خدمت میں یہ ثبت مواہیر بھیج دیں۔ (سلطان القلم صاحب مہر کی جمع مواہیر لکھتے ہیں۔ شاید یہ بھی القاء ہوا ہو) کہ جو بموجب قرارداد بالا اس خدمت کے لئے منتخب کئے گئے ہیں اور جب سب خطوط جمع ہوجائیں تو یہ مجموعۂ خطوط کو جو مکتوبات علماء ہند سے موسوم ہوسکتا ہے۔ کسی خوشخط مطبع میں بہ صحت تمام چھاپا جائے اور پھر دس بیس نسخہ اس کے گورنمنٹ میں اور باقی نسخہ جات متفرق مواضع پنجاب وہندوستان خاص کر سرحدی ملکوں میں تقسیم کئے جائیں۔‘‘ مرزاقادیانی اپنی مندرجہ بالا تجویز میں خود ہی نہیں بلکہ تمام علماء سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی امت مرحومہ کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے میں ان کا ساتھ دیں گے۔ کس عیاری سے مختلف انجمنوں سے فتوے طلب فرمارہے ہیں۔ مرزاقادیانی کی نبوت کا یہی کاروبار ہے کہ انگریزوں کو راضی کر کے اپنی جاگیر واپس لیں۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
انگریزوں کی تائید وحمایت میں پچاس الماریاں
’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائیدو حمایت میں گذرا اور میں نے ممانعت جہاد، انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں