مرزاقادیانی کے خاندان کی خدمات صرف پچاس سوار اور گھوڑے دینے پر ختم نہیں ہوئیں۔ بلکہ خود بھی جنگ کی آگ میں اپنے آقا کا اقتدار قائم کرنے کے لئے کود پڑے۔
چنانچہ (سیرۃ مسیح موعود ص۵،۶) میں لکھتے ہیں کہ: ’’اس خاندان نے غدر ۱۸۵۷ء کے دوران میں بہت اچھی خدمات کیں۔ غلام مرتضیٰ نے بہت آدمی بھرتی کئے اور اس کا بیٹا غلام قادر جنرل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اس وقت تھا۔ جب کہ افسر موصوف تریموں گھاٹ پر ۴۶نیو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہ تیغ کیا۔‘‘
جنرل نکلسن بہادر نے غلام قادر کو ایک سند دی جس میں یہ لکھا ہے کہ: ’’۱۸۵۷ء میں خاندان قادیان، ضلع گورداس پور تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ نمک حلال رہا۔‘‘
پھر انہیں صفحات میں لکھتے ہیں: ’’نظام الدین کا بھائی امام الدین جو ۱۹۰۴ء میں فوت ہوا دہلی کے محاصرہ کے وقت ہاؤسن ہارس رسالہ میں رسالدار تھا اور اس کا باپ غلام محی الدین تحصیلدار تھا۔‘‘ (سیرۃمسیح موعود ص۶۰) مندرجہ بالا بیان سے معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی کا خاندان ابتداء ہی سے مسلمانوں کا غدار، سکھوں اور انگریزوں کا نمک خوار اور وفادار تھا۔ محاصرہ دہلی میں انہوں نے بذات خود حصہ لیا اور ہندوستان میں اسلامی سلطنت کے آخری تاجدار کو گرفتار کرنے اور شہزادوں، شہریوں اور مجاہدوں کے قتل کرنے میں بھرپور حصہ لیا۔ تب ہی تو جنرل نکلسن نے اپنی سند میں لکھا کہ یہ خاندان زیادہ نمک حلال رہا۔ کیونکہ اس نے براہ راست حصہ لیا۔
چنانچہ انگریزوں کی دور رس نگاہوں نے بھانپ لیا کہ مسلمانوں کو جذبۂ جہاد سے عاری کرنے کے لئے بھی یہی خاندان کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ان کی وفادار (مسلمان سے غداری) غیرمشکوک ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ مرزاقادیانی کی تعلیم سکھوں کے زمانہ میں بھی نہایت عمدہ طریق پر جاری رہی۔ ورنہ سکھ کسی بھی پڑھے لکھے مسلمان کو برداشت نہ کرتے تھے۔ مگر مرزاقادیانی کو برداشت کر لیا۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ آنجناب کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔ (الولد سرلابیہ)
چونکہ مرزاقادیانی کا خاندان لالچی اور اقتدار پرست ثابت ہوا تھا۔ اس لئے جونہی سکھوں کا زور ٹوٹا انگریزوں کے برسراقتدار آنے کے امکانات روشن تھے۔ اس لئے مرزاقادیانی کا خاندان ان سے منسلک ہوگیا اور مرزاقادیانی ان کے شرعی وفادار بن گئے اور انگریزوں کی تنخواہ