اس نے مسلمانوں کے عقائد متزلزل کر کے مسلمانوں کو غلام بنانے کی تدبیر پر عمل کیا اور اس میں انگریز کامیاب رہا۔ اب ہم مرزاقادیانی کی عبارتوں سے اس خاندان اور مرزاقادیانی کی خود اپنی خدمات جو انگریزوں کے لئے وقف تھیں بیان کریں گے اور یہ بھی ثابت کریں گے کہ مرزاقادیانی انگریزوں کے تنخواہ دار تھے اور باقاعدہ انگریزوں کی سی۔آئی۔ڈی میں ملازم تھے۔ بلکہ اچھے اعلیٰ عہدہ پر متمکن تھے۔ امید ہے آپ ان انکشافات سے محظوظ ہوں گے اور نظر فکر کی راہ بھی بدل جائے گی۔
مرزاقادیانی کا خاندان اور سکھ
مرزاقادیانی کا خاندان سکھوں کے زمانہ میں بھی مسلمانوں سے متنفر اور سکھوں کا حلیف تھا۔ مرزاقادیانی کے خاندان کی تلواریں مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں۔ مرزاقادیانی کا فرزند مرزابشیرالدین محمود لکھتا ہے: ’’آخر تمام جاگیر کو کھو کر عطاء محمد بیگوال میں سردار فتح سنگھ رہلووالیہ کی پناہ میں چلا گیا اور بارہ سال تک امن وامان سے زندگی بسر کی۔ اس کی وفات پر رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی تمام جائیداد پر قابض ہوگیا تھا۔ غلام مرتضیٰ کو واپس قادیان بلالیا اور اس کی جاگیر کا ایک بہت بڑا حصہ اسے واپس دے دیا۔ اس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہوا اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات انجام دیں۔‘‘ (سیرۃ مسیح موعود ص۴)
’’نونہال سنگھ اور شیرسنگھ اور دربار لاہور کے دور دورے میں غلام مرتضیٰ ہمیشہ فوجی خدمات پر مامور رہا۔ ۱۸۴۱ء میں یہ جرنیل ونچوار کے ساتھ منڈی اور کلو کی طرف بھیجا گیا۔‘‘
پھر مرزابشیرالدین لکھتا ہے: ’’۱۸۴۲ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیدان بنا کر پشاور روانہ کیاگیا۔ ہزارہ کے مفسدہ میں اس نے کارہائے نمایاں کئے اور جب ۱۸۴۸ء کی بغاوت ہوئی تو یہ اپنی سرکار کا نمک حلال رہا اور اس کی طرف سے لڑا۔‘‘
مندرجہ بالا جن مہموں کا ذکر ہوا ہے یہ مسلمانوں کے ساتھ سکھوں کی جنگیں ہوئی ہیں۔ مرزاقادیانی کے والد صاحب حق نمک ادا کرتے رہے اور مسلمانوں کو تہ تیغ کرتے رہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ: ’’اس موقع پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے اچھی خدمات کیں۔ جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج لئے دیوان مولراج کی امداد کے لئے ملتان کی طرف جارہا تھا تو غلام محی الدین نے مصر صاحب دیال کی فوج کے ساتھ باغیوں سے مقابلہ کیا اور ان کو شکست فاش دی۔ ان کو سوائے