مرزاقادیانی نے کیا ہی درست فرمایا کہ عوارض مراق وپیشاب شامل حال ہیں۔ لوگ تو بزرگوں کے متعلق بلکہ عام مؤمنین کے متعلق یہ خیال بلکہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اﷲ کی رحمت ان کے شامل حال ہوتی ہے۔ مگر مرزاقادیانی کے شامل حال پیشاب ومراق آیا۔
کسی شاعر نے کہا ہے ؎
اذا الا مانۃ قسمت فی معشر
ادنیٰ باوفر حظہا قسا مہا
یعنی جب کہ ازل میں کسی قوم میں امانت کی تقسیم کی گئی تو قسام ازل نے ہماری قوم کو امانت کا وافر حصہ عطاء کیا۔ میں اہل علم سے معذرت چاہتے ہوئے مرزاقادیانی کے بارے میں یوں کہہ دوں تو معاف رکھنا ؎
اذا العوارض قسمت فی مفتری
اوفیٰ باوفر حظہا قسامہا
جب کسی مفتری کو عوارضات تقسیم کئے گئے تو ازل میں قسام ازل نے مرزاقادیانی کو وافر حصہ عطاء کیا۔
حافظہ نہ باشد
مرزاقادیانی کو ماشاء اﷲ خرابی حافظہ سے بھی وافر حصہ ملا تھا۔ جیسا کہ خود تحریر فرماتے ہیں: ’’میرا حافظہ بہت خراب ہے۔ اگر کئی دفعہ کسی کی ملاقات ہو تب بھی بھول جاتا ہوں۔ یاد دہانی عمدہ طریقہ ہے۔ حافظہ کی یہ ابتری ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۳ ص۲۱) مرزاقادیانی نے کیا پتہ کی بات کی کہ: ’’بیان نہیں کر سکتا۔‘‘ کس طرح بیان کریں۔ ’’اگر گویم زباں سوزد‘‘ اگریہ خرابی نہ ہوتی تو دوسرا الہام پہلے کے خلاف کبھی نہ گھڑتے۔ چونکہ دروغ گورا حافظہ نباشد کے مصداق پہلا الہام شائع تو کر دیتے۔ مگر یاد نہ رہتا کیا الہام شائع کیا تھا۔
کتاب دیکھنے کی فرصت نہ تھی۔ جس طرح معلوم ہوچکا ہے۔ ہر وقت لوٹا ہاتھ میں ہوتا پھر ڈھیلے بھی ساتھ۔ لہٰذا جب دوسرا الہام شائع ہوتا تو پہلے کے خلاف ہوتا۔ اس کی تاویل پر تاویل ہوتی۔ پھر ظاہر ہے مرزاقادیانی کو بڑا قلق ہوتا ہوگا۔ اب اسے کس طرح بیان کریں۔ کیونکہ اعتراف کذب نہایت ہی کٹھن معاملہ ہے۔ زباں سوزد والا معاملہ ہے۔
ایں ہمہ خانہ آفتاب است