ان کی تسبیح سمجھ نہیں سکتے۔
یہاں سے تو معلوم ہوتا ہے۔ جناب بڑے غور سے روٹی کے ٹکڑوں میں بھی امتیاز کرتے تھے۔ مگر ایک دوسری عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب روٹی یوں کھاتے تھے کہ معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کیا کھا رہا ہوں۔ لیجئے! وہ عبارت بھی ہدیہ ناظرین کرتا ہوں۔
مرزاقادیانی کی غفلت شعاری
’’ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جسمانی عادات میں اتنے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تو بے توجہی کے عالم میں اس کی ایڑی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں۔ بلکہ اوپر کی طرف ہوجاتی تھی اور بارہا ایک کاج کا بٹن، دوسرے کاج میں لگا ہوتا تھا اور بعض اوقات کوئی دوست حضور کے لئے گرگابی ہدیتاً لاتا تو آپ بسا اوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال دیتے اور بایاں دائیں میں۔
چنانچہ اس تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتا پہنتے تھے۔ اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھا رہے ہیں۔ جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آجاتا ہے۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ دوئم ص۵۸، بروایت نمبر۳۷۵)
مرزاقادیانی کے خلیفہ تو فرمارہے ہیں کہ حضرت روٹی بڑی توجہ سے کھاتے تسبیح والے ٹکڑے چن کر کھاتے تھے۔ مگر دوسرے صاحبزادے فرماتے ہیں۔ ان کو مطلق یہ علم بھی نہ ہوتا تھا کہ کیا کھاتے ہیں۔ جب کوئی کنکر دانت تلے آکر پستا تو خیال ہوتا کہ مابدولت روٹی کھا رہے ہیں۔
واہ رے مراق تیرے کرشمے، کیونکہ مراق میں بھی اشتہا بہت کم ہوتی ہے۔ اس لئے روٹی کی طرف توجہ نہ ہوتی۔ نیز جرابوں پر اور جوتوں پر توجہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ شاید ایسی بدحواسیاں بھی قادیانی نبوت کا جز ہوں۔
امید ہے تمام قادیانی بھی اس سنت پر عمل کرتے ہوں گے۔ اگر قادیانی حضرات اکٹھے ہو کر دایاں جوتا بائیں پاؤں میں اور بایاں جوتا دائیں میں اور جراب کی ایڑی اوپر کئے ہوئے ڈھیلے اور گڑ جیب میں بھر کر ایک ہاتھ میں ڈھیلے اور دوسرے میں گڑ لئے سامنے روٹی کے ٹکڑوں کا انبار رکھے ہوئے سنت مسیح کی نمائش میں پریڈ کریں تو پھر تماشائیوں کو وجد آجائے۔ اگر اس نمائش پر ٹکٹ لگادیں تو یقینا تبلیغ کے لئے کافی مقدار میں فنڈ جمع ہوسکتا ہے۔