اتنے میں میز پر چائے آگئی۔ پروفیسرصاحب نے فرمایا کہ میں برطانیہ گیا تھا۔ ایک دوست کے ہاں ردقادیانیت پر ایک کتاب دیکھی۔ فوٹو کرالیا۔ نامکمل ہے۔ آپ اسے دیکھ لیں۔ آپ کے پاس نہ ہوتو اس کا بھی فوٹو کرالیں۔ فقیر نے وہ کتاب دیکھی تو ’’چودھویں صدی کا مسیح‘‘ تھی۔ فقیر نے خیال کیا کہ ایک تو فوٹومدھم ہے۔ دوسرا نامکمل نسخہ ہے۔ سیالکوٹ سے شائع ہوئی ہے۔ تلاش کریں گے تو مل جائے گی۔چنانچہ وہ فوٹو والا نسخہ واپس کردیا۔ پروفیسر صاحب نے بھی محسوس نہ کیا۔ یایہ کہ میری اس ناقدری کو انہوں نے محسوس نہ ہونے دیا۔ اب فقیر نے تلاش شروع کی۔ لائبریریاں چھان ماری۔ کتاب نہ ملی۔ ربع صدی دھکے کھاتا رہا۔ کتاب کا کہیں سے سراغ نہ ملا۔ اتنے میں محترم جناب پروفسیر عبدالجبارشاکر مرحوم کا وصال ہوگیا۔ اب اسی فوٹو سے فوٹو کرانے کا فیصلہ کیا۔
ہمارے مخدوم جناب رضوان نفیس صاحب جو ہمارے حضرت سید نفیس الحسینیc کے خادم خاص وخلیفہ مجاز ہیں اور کتابوں کی تلاش میں اﷲ رب العزت نے انہیں حضرت سید نفیس الحسینیc والے ذوق کا بھی وارث بنایا ہے۔ ان سے عرض کی تو پتہ چلا کہ پروفسیر عبدالجبارشاکرc کے صاحبزادے جمال الدین افغانی اسلام آباد رہتے ہیں۔ ہفتہ شام لاہور آتے ہیں۔ اتوار شام واپس چلے جاتے ہیں۔ صفہ اکیڈمی لاہور کے حضرت مولانا محمدعابد زیدمجدہم کے ان سے مراسم ہیں۔ وہ ان سے بات کریں گے۔
چنانچہ حضرت مولانا محمدعابد صاحب نے ذمہ داری کو نبھایا۔ فوٹو کراکر ۲۰؍اپریل ۲۰۱۰ء کو فقیر کو نسخہ ارسال فرمایا۔ فقیر کو خزانہ مل گیا۔ اب دن رات ایک کرکے کتاب کو پڑھنا شروع کیا۔ فوٹو سے فوٹو تھا اور وہ بھی ایک صدی قبل کی کتاب سے جو مدہم درمدہم ہوگیا۔ اب دن رات ایک کرکے فقیر نے مدہم حروف پر قلم چلایا۔ انہیں نمایاں کیا۔ لیکن بعض حروف تو باالکل سمجھ میں نہ آئے۔ قلق ہوا۔ بلکہ قلبی قلق ہوا کہ کتاب چھپنے کے قابل نہیں۔ اس میں چند صفحات پر ایک نظم تھی وہ مولانا محمدحسین بٹالویc کے رسالہ اشاعت السنۃ سے مصنف نے لی تھی۔ اشاعت السنہ کی فائل برادرم مولانا محمدحماد لدھیانوی زیدمجدہ کے پاس فیصل آباد تھی۔ اس سے متعلقہ صفحات فوٹو کرائے۔ لیکن اب بھی طبیعت میں قلق باقی کہ کتاب اس فوٹو سے کمپوز کرانی مشکل ہے کہ پڑھی ہی نہیں جارہی۔ سیالکوٹ کے علم دوستوں سے کہا لیکن ’’پرائی بکری کو کون گھاس ڈالتا ہے۔‘‘ مجھ مسکین پر جو بیت رہی تھی وہ تو اﷲ تعالیٰ جانتے ہیں۔ ایک دن جناب مولانا محمدعباس پسروری صاحب سے ذکر کیا۔ انہوں نے تلاش کا وعدہ کیا۔ ان کا عرصہ بعد فون آیا کہ جناب ضیاء اﷲ کھوکھر صاحب گوجرانوالہ کی لائبریری میں اصل کتاب موجود ہے۔ فقیر کو جن