گا۔ (براہین احمدیہ حاشیہ ص۴۹۸، خزائن ج۱ ص۵۹۳) اس عبارت میں مرزاقادیانی نے صاف صاف بیان کیا کہ اس آیت میں مسیح علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کی خبر دی گئی ہے اور دین کا غلبہ حضرت مسیح کے دوبارہ آنے پر ہوگا۔ مگر مابدولت کچھ مدت بعد اس کے خلاف اعلان صادر فرماتے ہیں۔
اس کے خلاف
’’قرآن شریف قطعی طور پر اپنی آیات بینات میں مسیح کے فوت ہونے کا قائل ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۴۲، خزائن ج۳ ص۱۷۲)
’’قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۴۶، خزائن ج۱۴ ص۳۹۲)
ازالہ اوہام کی عبارت سے معلوم ہوا کہ مسیح مرگئے ہیں۔ دوبارہ نہیں آئیں گے۔ حالانکہ پہلے براہین میں اقرار کر چکے ہیں کہ دوبارہ تشریف لائیں گے۔ نیز براہین احمدیہ میں مرزاقادیانی نے ’’ھو الذی ارسل‘‘ کی تفسیر خود کی کہ یہ آیت حضرت مسیح کی دوبارہ آمد کی خبر دے رہی ہے۔ مگر یہاں ایام صلح میں فرماتے ہیں کہ: ’’قرآن مجید میں مسیح کی آمد ثانی کا ذکر نہیں ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی نے یا تو پہلے جھوٹ کہا یا بعد میں جھوٹ کہا۔ اگر پہلی عبارت صحیح ہے تو دوسری غلط۔ اگر دوسری صحیح ہے تو پہلی کذب، بہرصورت مرزاقادیانی کا کاذب ہونا لازم آتا ہے۔ ہوالمطلوب!
ختم نبوت کا اقرار
۱… ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اﷲ وخاتم النبیین الاتعلم ان رب الرحیم المتفضل سمّٰی نبیناﷺ خاتم النبیین بغیر استثناء وفسرہ نبینا فی قولہ لا نبی بعدی ببیان واضح للطالبین ولو جوّزنا ظہور نبی بعد نبیناﷺ لجوّزنا انفتاح باب وحی النبوۃ بعد تغلیقہا وہذا خلف کمالا یخفی علی المسلمین‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۳۴، خزائن ج۷ ص۲۰۰)
نہیں ہیں محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ۔ لیکن اﷲ کے رسول اور ختم کرنے والے نبیوں کے۔ کیا نہیں جانتا تو کہ رب رحیم متفضل نے ہمارے نبی علیہ السلام کا نام خاتم النبیین رکھا ہے۔ بغیر کسی استثناء کے اور اس کی تفسیر حضور نے اپنے اس قول ’’لا نبی