لہ خسف القمر المنیر وان لی
غسا القمران المشرقان اتنکر
اس کے لئے (یعنی حضور علیہ السلام) چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند سورج دونوں کا۔ کیا اب تو انکار کرے گا؟
مرزاقادیانی شق القمر کے معجزہ کو خسوف قمر قرار دیتے ہیں۔ پھر اپنے متعلق کہتے ہیں۔ میرا معجزہ خسوف قمر، کسوف شمس ہے۔ یعنی میرا معجزہ حضورﷺ کے معجزہ سے بڑھ کر ہے۔
پھر مرزاقادیانی نے شق قمر کو بیک جنبش قلم خسوف سے تعبیر کر دیا۔ یہ معجزہ کی حقیقت کو گھٹانے کے لئے تاکہ مرزاقادیانی کے مزعومہ نشان معجزہ قرار پائیں۔ حالانکہ مرزاقادیانی نے (چشمہ معرفت حصہ دوئم ص۴۱، خزائن ج۲۳ ص۴۱۱) میں خود لکھا ہے کہ: ’’آپ کی انگلی کے اشارہ سے چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے۔‘‘
مرزاقادیانی جب مطلب برآری پر اتر آتے ہیں تو پھر اپنی سابقہ تحریرات کو بھول جاتے ہیں۔ سچ ہے ؎
دروغ گو را حافظہ نہ باشد
اب آپ وہ عبارت مرزاقادیانی کی کتاب سے پڑھیں: ’’قرآن شریف میں مذکور ہے کہ آنحضرتﷺ کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوگیا اور کفار نے اس معجزہ کو دیکھا۔ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ ایسا وقوع میں آنا خلاف علم ہیئت ہے۔ یہ سراسر فضول باتیں ہیں۔‘‘
(چشمہ معرفت حصہ دوم ص۴۱، خزائن ج۲۳ ص۴۱۱) دیکھیں مرزاقادیانی کا تضاد، پھر لطف کی بات یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنی عادت کے مطابق یہاں بھی دروغ گوئی سے کام لیا ہے اور جھوٹ کہا ہے کہ: ’’قرآن میں مذکور ہے کہ آپ کی انگلی کے اشارہ سے چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ قرآن مجید اٹھا کر دیکھیں وہاں کہیں بھی مذکور نہیں کہ انگلی کے اشارہ سے چاند کے دو ٹکڑے ہوئے۔ تاہم چاند کے دو ٹکڑے ہونا مرزاقادیانی کو مسلم ہے۔‘‘
کیا فرماتے ہیں مرزاقادیانی معراج جسمانی اور رفع عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں؟ کیا ان میں کلام کرنا بھی فضول نہیں؟ اگر چاند کے دو ٹکڑے ہونا محال نہیں تو جسمانی معراج کیوں کر محال ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ آسمان پر جانا کیوں محال ہے؟ ہمارا مقصود اس عبارت سے یہ تھا کہ مرزاقادیانی اپنے معجزہ کو بڑھانے کے لئے حضورﷺ کے معجزہ کو گھٹا کر بیان کر رہے