مرزاقادیانی نے جو براہین احمدیہ میں لکھا کہ: ’’حضور یہ سمجھتے تھے جو کام آپ کے سپرد کیاگیا تھا وہ اس کا حق نہیں ادا کر سکے اور نہ جانفشانی سے ہی کام کر سکے۔‘‘ پھر دوسری عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی اور مامور کی صداقت اس کے کام سے معلوم ہوتی ہے۔ یعنی جو کام ان کے سپرد ہو وہ اسے احسن طریق سے کما حقہ، ادا کر دیں۔ ایسا کہ اس میں ان کا کوئی شریک نہ ہو۔ تب وہ سچے ورنہ… دونوں عبارتوں کو ملانے سے معلوم ہوا کہ حضور حق تبلیغ اور حق رسالت ادا نہ کر سکے۔ تب ہی استغفار کرتے تھے اور یہاں سے معلوم ہوا جو حق ادا نہ کر سکے تو اس کی صداقت بھی مشکوک ہوئی۔ پھر کیا قادیانی کے نزدیک حضور کی صداقت مشکوک ہوگئی؟ معاذ اﷲ ہذا بہتان عظیم!
یہاں غلام احمد متنبی نے کذب سے کام لیا ہے اور آپﷺ کی صریح توہین کی ہے۔ رسول اﷲﷺ نے فرائض رسالت کما حقہ ادا کر دئیے۔ آپﷺ نے اکمل طریقے سے فرائض پورے کئے۔ بلکہ صحابہ کرام نے بھی کامل طور پر حق تبلیغ ادا کردیا۔ اﷲ اﷲ چہ نسبت خاک رابعالم پاک!
اپنے متعلق معیار صداقت یہ پیش کرتا ہے کہ: ’’میں جس کام کے لئے مامور ہوا تھا وہ پورا کر دکھایا۔‘‘
اس میں کیا شک ہے غلام احمد جیسا راندۂ بارگاہ ایزدی جس کام کے لئے مامور من الشیطان ہوا تھا۔ اسے پوری جانفشانی سے پورا کیا۔ یعنی کفار مغرب کی غلامی جس کے خوب گیت گائے نیز تشہیر اکاذیب جس میں مرزاقادیانی کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ اس میں کیا شک، شیطان نے جس مقصد کے لئے وحی کی تھی اس میں کامیاب رہا۔ مسلمانوں میں سے ایک ایسا گروہ الگ کر دیا جو شیطان کے اشارے پرناچنے لگا۔ بندگان خدا پر ظلم، ستم ڈھانے والے ظالموں کے گن گانے لگا۔ اسلام کے لئے جہاد حرام ٹھہرایا۔ مگر سلطنت برطانیہ کے لئے قربانی دینا عین ایمان ’’بئسما یامرکم بہ ایمانکم ان کنتم مؤمنین‘‘ بلکہ ان کی وفاداری شرط ایمان اور مقصد احمدیت سرکار انگریزی کی مدح سرائی ٹھہرایا۔
حضورﷺ کے متعلق لکھتا ہے کہ: ’’آپ کے معجزات کی تعداد تین ہزار ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۴۰، خزائن ج۱۷ ص۱۵۳)
’’مگر اپنے معجزات ۱۰لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ص۴۱، خزائن ج۲۰ ص۴۳)
مرزاقادیانی (اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۹ ص۱۸۳) میں لکھتے ہیں کہ ؎