یہاں مرزاقادیانی نے اپنی پیشین گوئیوں کی جھوٹی تاویل کرنے کے باوجود جب محسوس کیا کہ ہو سکتا ہے یہ بھی غلط نکل آئے تو یہ آڑ لی۔ حضورﷺ کو بھی امور بالا کا علم نہ تھا۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ خود لکھتا ہے کہ: ’’یہ حقیقت میرے مریدوں پر منکشف ہوگئی۔‘‘
’’اب رہی اپنی جماعت، خدا کا شکر ہے کہ (انہوں) نے دمشق کے منارہ پر مسیح کے اترنے کی حقیقت، دجال کی حقیقت، ایسا ہی دابۃ الارض (وغیرہ) کے بارہ میں خدا نے ان کو معرفت کے مقام تک پہنچادیا۔‘‘ (فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۵۱)
ناظرین! غور کریں کہ نبی علیہ السلام جن پر قرآن مجید نازل ہوا۔ وہ تو اس حقیقت کو معلوم نہ کر سکے اور ان کی رسائی مقام معرفت تک نہ ہو سکی۔ مگر مرزاقادیانی کے مریدوں کی رسائی وہاں تک ہوگئی۔ حالانکہ صاحب وحی اور صاحب کتاب سے بڑھ کر کتاب کو دوسرا کوئی نہیں جان سکتا۔ بلکہ صاحب وحی اس کی تشریح بھی اﷲ تعالیٰ سے ہی پوچھتا ہے۔ کیا جس ہستی کو خدا نے علم اوّلین وآخرین عطا کیا ہو وہ اپنی وحی کو نہ سمجھ سکے۔ مگر قادیان کے چند بے علم، سر پھرے، ایک مراقی کے دام تزویر میں پھنسے ہوئے مقام معرفت تک پہنچ کر وہ تمام عقدے حل کر دیں جو محمد مصطفیٰ (فداہ ابی وامی) سے حل نہ ہو سکے۔ کیا اس سے بڑھ کر خاتم النبیین کی کیا توہین ہوسکتی ہے؟ پھر قادیانی متنبی کا دعویٰ بھی یہ ہے کہ میں حضورﷺ کا ظل ہوں۔ کیا ظل اصل سے فائق ہوتا ہے؟
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۰۶، خزائن ج۲۱ ص۲۶۹) پر لکھتا ہے: ’’چنانچہ ہمارے نبیﷺ کی تمام استغفار اسی بناء پر ہے کہ آپ بہت ڈرتے تھے کہ جو خدمت مجھے سپرد کی گئی ہے۔ یعنی تبلیغ کی خدمت اور خدا کی راہ میں جانفشانی کی خدمت اس کو جیسا کہ اس کا حق تھا۔ میں ادا نہیں کر سکا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۵۳، خزائن ج۳ ص۳۹۸) پر یوں لکھتے ہیں: ’’لیکن زیرک لوگ اس کو خوب جانتے ہیں کہ ایسے مأمور من اﷲ کی صداقت کا اس سے بڑھ کر اور کوئی ثبوت ممکن نہیں کہ جس خدمت کے لئے اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے بجالانے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ اگر وہ اس خدمت کو ایسی طرز پسندیدہ طریق برگزیدہ سے ادا کردیوے۔ جو دوسرے اس کے شریک نہ ہوسکیں۔ یقینا سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچا تھا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۴۸، خزائن ج۳ ص۳۳۸) پر لکھتے ہیں: ’’ان کو موت نہیں دیتا جب تک وہ کام پورا نہ ہو جس کے لئے وہ بھیجے گئے ہیں۔‘‘