پسند نہیں فرمائیں گے، جو ظاہر بینوں کی نظر میں مرزا کی فتحیابی کا نشان ہوگا۔ نیز دوسرے علماء کرام کے ساتھ تحریری معارضہ کو چالیس والی شرط کے ساتھ گانٹھنا بھی راز رکھتا ہے کوئی بتلا سکتا ہے کہ مرزا چالیس سے کم علماء کے ساتھ کیوں اب تحریر سے مباحثہ نہیں کرتا اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اس کو جھوٹی شیخی اور بیہودہ تعلّی دکھانی مطلوب ہے ورنہ اگر صرف تصدیق دعویٰ اور ہدایت علماء مقصود ہوتی تو اس خاکسار نے جو ۱۳ اگست ۱۹۰۰ء کو سراج الاخبار جہلم میں بہ تسلیم جملہ شرائط مرزا کو میدان مباحثہ میں بلایا تھا اور بعد ازاں خط بھی ارسال کیا تھا۔ اور صاف لکھا تھا کہ مجھے بلا کم و کاست آپ کی جملہ شرائط منظور ہیں۔ آئیے جس صورت پرچا ہو مقابلہ کرلیجیے۔ اس کے جواب میں مرزا جی ایسے دم بخود ہوئے کہ اب تک کروٹ نہیں بدلی۔ وہ مضمون بھی اڑا دیا اور وہ خط بھی غائب کردیا۔
مفتی صاحب… پیر صاحب اور ان کے مولوی غازی صاحب اس اشتہار مطبوعہ ۲۵؍جولائی ۱۹۰۰ء کے جواب میں حضرت مولوی سید محمد حسن صاحب امروہوی نے ایک اشتہار قادیاں سے ۱۴؍اگست ۱۹۰۰ء کو نکالا۔ جس میں سید صاحب موصوف نے پیر صاحب اور غازی صاحب ہردو کی تمام باتوں کے مفصل جوابات نہایت عمدگی سے دئیے۔ اور پھر اتمام حجت کے لیے یہ بھی لکھ دیا کہ اگر پیر صاحب سیدھی طرح حضرت امامنا کی مقابلہ پر تفسیر لکھنا نہیں چاہتے اور تفسیر القرآن میں مقابلہ کو ٹالنے کے واسطے ضرور مباحثہ ہی کرنا چاہتے ہیں تو مباحثہ کے واسطے میں حاضر ہوں اور ساتھ ہی محمد حسن صاحب نے یہ بھی تحریر فرمایا کہ اگر وہی تین مولوی جو ہمارے مخالف اور پیر صاحب کے موافق ہیں اس وقت مجوزہ قسم کھا کر یہ شائع کریں کہ پیر صاحب گولڑوی نے رعب میں آ کر مقابلہ تفسیر کو ٹالنے کے واسطے یہ تجویز نہیں کی۔ بلکہ انہوں نے نیک نیتی سے یہ کارروائی کی تھی۔ تب بھی ہم مان لیں۔ اس پر نہ تو مولوی محمد احسن صاحب کے ساتھ منظور کیا گیا اور نہ ان مولویوں میں بھی کسی کو قسم دلائی گئی۔
حافظ صاحب… ان تحریروں کو اس لیے بے معنی خیال کیا گیا کہ خود مرزا نے اپنے اشتہار مشترہ ۲۰؍جولائی ۱۹۰۰ء میں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ ہر دو امور کا فیصلہ علی الترتیب مطلوب ہے۔ اور پہلے ایک اشتہار میں مولوی محمد غازی صاحب نے مرزائی جماعت کو صاف طور پر مطلع کر دیا تھا کہ پیر صاحب موصوف اس صورت میں قلم اٹھائیں گے یا کوئی مباحثہ کریں گے جب کہ بالمقابل مرزا خود میدان میں آئے یا کچھ تحریری بحث کرے۔ ورنہ نہیں پس حضرت پیر صاحب کی جوابی چٹھی مطبوعہ ۲۵؍جولائی ۱۹۰۰ء خاص مرزا کے نام پر تھی بصورت انکار مرزا کو بذات خود جواب دینا