حافظ صاحب… یہ بالکل غلط ہے مرزا صاحب نے ایک مبطوعہ چٹھی بصورت اشتہار مطبوعہ ۲۰؍جولائی ۱۹۰۰ء بذریعہ رجسٹری حضرت میں حضرت پیر صاحب بشمولیت نام دیگر علمائے کرام و مشائخ عظام زید ہم اللہ تعالیٰ اکثر ہم کے بھیجی جس کے پہلے دو صفحوں پر مرزا نے اپنی عادت کے موافق اپنے مرسل، مامور من اللہ اور مجدد اور مہدی و مسیح ہونے کے ثبوت میں بخیال مخبوط خود دلائل پیش کیے۔ اور عالی جناب حضرت پیر صاحب موصوف اور دیگر علماء و فضلاء اسلام کو لکھا کہ میرے دعویٰ کی تردید میں کوئی دلیل اگر آپ کے پاس ہے تو کیوں پیش نہیں کرتے ہو۔ اس وقت مفاسد بڑھ گئے ہیں اس لیے مجھے مصلح کے عہدہ میں بھیجا گیا ہے۔ اخیر آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’اگر پیر صاحب ضد سے باز نہیں آتے خدمت میں فیصلہ کے لیے پیش کی جائیں جو فریقین سے ارادت اور عقیدت کا ربط نہ رکھتے ہوں۔ ان علماء سے فیصلہ سنانے سے پہلے وہ مغلظ حلف لیا جائے جو قذف محصنات کے بارہ میں مذکور ہے۔ اس حلف کے بعد جو فیصلہ ہر سہ علماء فریقین کی تفسیروں کی بابت صادر فرما دیں۔ وہ فریقین کو منظور ہوگا۔ ان ہرسہ علماء کو جو حکم تجویز ہوں گے فریقین کی تفسیروں کے متعلق فیصلہ کرنا ہوگا کہ قرآن کریم کے معارف اور نکات کس کی تفسیر میں صحیح اور زیادہ ہیں اور عربی عبارت کس کی بامحاورہ اور فصیح ہے۔‘‘ یہ چٹھی ۱۲ صفحہ کی تھی۔مگر اس کی دلخراش گالیاں ناجائز تا مشروع اور بے ہودہ بدظنوں کو حذف کر دیا جائے تو اس کا تمام ماحصل اور خلاصہ صرف یہی ہے جو اوپر لکھا گیا۔ بااینہمہ کہ حضرت فخر الاصفیاء والعلماء کو اپنے مشاغل للہی سے عدیم الفرصتی کی وجہ سے ان جھگڑوں سے کچھ تعلق نہیں تھا لیکن ایسے نازک وقت میں کہ اسلام کو ایک خطرناک مصیبت کا سامنا تھا۔ مرزا کے مقابلہ میں آنے کو اپنی عزلت نشینی پر ترجیح دی اور حسب درخواست مرزا جو اب قبولیت دعوت بصورت اشتہار بتاریخ ۲؍اگست ۱۹۰۰ء ارسال فرمایا اور لکھ دیا کہ وہ خود ۲۵؍اگست ۱۹۰۰ء کو (اس لیے کہ مرزا نے اختیار تقرر تاریخ حضرت پیر صاحب کو دیا تھا) لاہور آ جائیں گے آپ بھی تاریخ مقررہ پر تشریف لے آئیں۔ چونکہ مرزا نے (۲۰؍جولائی ۱۹۰۰ئ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۲۶) کی چٹھی میں اس طریق