وقت ایسے جھگڑوں میں ضائع کرنے کے واسطے میرے مقابلہ میں مباحثہ کو آ جائیں گے مگر دقت یہ ہوئی کہ حضرت پیر صاحب بہ نظر اس کے مرزا کو عوام الناس میں جھوٹی شیخی بگھارنے کا موقع نہ ملے بمقابل اشتہار کے ذریعہ سے بوجہ ہمدردی مباحثہ کے لیے آمادہ ہوگئے اور حسب درخواست ان کی ۲۵؍اگست ۱۹۰۰ء تاریخ مقرر کرکے لاہور تشریف لے آئے۔ مرزا صاحب ہیں کہ بغلیں جھانکتے ہیں اور کہتے ہیں ؎
یہ کیا ہوگیا میں نے جانا تھا کیا
خود کردہ را علاجے نیست
سب پکار پکار کر کہتے ہیں۔ ہائے افسوس ہائے ناکامی۔
ہرکس از دست غیر نالہ کند
سعدی از دستِ خویشتن فریاد
اور بیت الفکر سے باہر قدم نہیں نکالتے۔
حافظ صاحب… مرزا صاحب اصلی منشاء تو شہرت اور تشہیر کا تھا۔
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام بھی گر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
یہ مطلب تو ہتھکنڈہ سے اچھی طرح حاصل ہوچکا باقی رہا واقعی مقابلہ سو اس کا جانگداز خیال مرزا کو لاہور، دہلی، لدھیانہ وغیرہ مقامات کا وہ پرانا اور پردرد نظارہ کا سماں جس میں اس کی خفت اور بے عزتی میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رہا۔ دکھائی دیتا تھا اس لیے لاہور تک آنا گوارا نہ کیا۔
(روئیداد جلسہ اسلامیہ ص ۲)
مفتی صاحب… (نہایت جوش کے لہجہ میں) پیر مہر علی شاہ میں اتنی لیاقت تو ہے نہیں کہ عربی میں تفسیر لکھیں یا معارف بیان کریں۔ اور نہ اتنا بھروسہ خدا پر ہے کہ خدا اس کی دعا قبول کرے۔ جیسا کہ ان کے مریدوں نے اشتہار دیا ہے۔ اس واسطے انہوں نے سوچا کہ اگر ہم تفسیر میں مقابلہ منظور کرلیں گے تو خواہ مخواہ بے عزتی ہوگی اور اگر نہ مانیں گے تو مرید بھاگنے شروع ہو جائیں گے۔ اس واسطے چارو ناچار ایسی بات نکالو جس سے معاملہ ہی ٹل جائے اور مقابلہ بھی نہ ہو پس انہوں نے کہا کہ ہم کو سب شرطیں منظور ہیں مگر ایک شرط ہماری بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ تفسیر سے پہلے ایک تقریر مباحثہ ہو جس کا حکیم مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی صاحب دیگر ہمارے حق میں فیصلہ کردیں تو مرزا صاحب ہمارے ساتھ بیعت کرلیں وغیرہ وغیرہ۔ (رسالہ واقعات صحیحہ صفحہ ۲۴ و ۲۵)