شخص کو ذلت پہنچے گی یا وہ مورد عتاب الٰہی ہوگا۔
۲… وہ خدا کے پاس اپیل کرنے سے اجتناب کرے گا کہ وہ کسی شخص کے ذلیل کرنے سے یا ایسے نشان کرنے سے کہ مورد و عتاب الٰہی سے یا یہ ظاہر کرے کہ مذہبی مباحثہ میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔
۳… کسی چیز کو الہام جتا کر شائع کرنے سے مجتنب رہے گا۔ جس کا یہ منشاء ہو یا ایسے منشاء رکھنے کی معقول وجہ رکھتا ہو کہ فلاں شخص ذلت اٹھائے گا یا مورد و عتاب الٰہی ہوگا۔ اس اقرار کے بعد کچھ دن مرزا صاحب چپ رہے۔ مگر جب آمدنی میں فتور اور الہامی یافتوں میں قصور واقع اور معتقدان میں انتشار پیدا ہوا۔ پرانے رفیق منشی الٰہی بخش صاحب ملہم اور منشی عبد الحق صاحب اکاؤنٹینٹ حافظ محمد یوسف صاحب ضلع دار رائو ڈپٹی علی شاہ صاحب وغیرہ وغیرہ پیر وئو معاون علیحدہ ہونے لگے تو پھر مرزا صاحب کو ضرورت نفس نے مجبور کیا کہ پھر وہی پرانی طرز اور رفتار اختیار کریں۔
تب اشتہار منارۃ المسیح معراج یوسف معیار الاخیار نکلالی مگر اس سے بھی مطلب بر آری نہ ہوئی تو سوچ سوچ کر حضرت پیر مہر علی شاہ سجادہ نشین گولڑہ شریف و ۸۶ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۳۷تا۳۴۱) علماء کرام و صوفیائے عظام کو بالخصوص اور باقی عام علماء و صوفیا پنجاب و ہند کو مباحثہ کے لیے مقام لاہور بمقابلہ خود دعوت دی اور ان الہامات سے کام لیا جس کی عدم شیوع کی نسبت وہ اقرار نامہ مذکور الصدر میں اقرار کر چکے تھے اور یہ چاہا کہ پیر صاحب موصوف میرے مقابلہ میں مباحثہ تحریری و تقریری (تفسیر القرآن) کریں اور اپنے الہام ہائے متعددہ سے جتایا کہ پیر صاحب ایسا مباحثہ کرنے سے بالکل ناکام رہیں گے بلکہ یہاں تک کہ وہ اس مباحثہ کے واسطے لاہور تک نہیں آئیں گے اور اگر وہ ایسا کریں گے تو میرا غالب ہونا تصور ہوگا۔ چنانچہ لکھا ہے: ’’میں مکرر لکھتا ہوں کہ میرا غالب ہونا اس صورت میں متصور ہوگا۔ کہ جب پیر مہر علی شاہ صاحب بجز ایک ذلیل اور قابل شرم اور رکیک عبارت اور لغو تحریر کے کچھ بھی نہ لکھ سکیں اور ایسی تحریر کریں جس پر اہل علم تھوکیں۔ اور نفریں کریں۔ کیونکہ میں نے خدا سے یہی دعا کی ہے کہ وہ ایسا کرے اور میں جانتا ہوں وہ ایسا ہی کرے گا اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحب بھی اپنے تئیں مومن و مستجاب الدعواۃ جانتے ہیں تو وہ بھی ایسی ہی دعا کریں۔ اور یاد رہے کہ خدا تعالیٰ اس کی دعا ہرگز قبول نہیں کرے گا کیونکہ وہ خدا کے مامور و مرسل کے دشمن ہیں۔ اس لیے آسمان پر ان کی عزت نہیں۔‘‘
مولوی صاحب… مرزا نے یہ اشتہار دے دیا۔ اس کو یہ امید تو ہرگز نہیں تھی کہ پیر صاحب اپنا عزیز