صیاد تیرے خوف سے ہوں چپ وگرنہ یاں
میں اور چین دیوے گھڑی بھر فغاں مجھے
۲… مرزا صاحب آدمی عقل مند ہے بڑے بڑے ہی آدمیوں سے مڈھ بھیڑ کرتا ہے جب علماء سے منہ کی کہا چکا ہے تو صوفیوں کی طرف رجوع ہوا ہے۔ حضرت پیر صاحب کو مخاطب کیا ہے۔ ہمیں تو امید نہیں کہ وہ لاہور تک بھی آئیں۔ مناظرہ اور مباحثہ توشے دیگر ہے۔
۱… سکوت میں سارا کارخانہ درہم برہم ہونے لگا تھا۔ اگر کسی سے چھیڑچھاڑ نہ ہو تو مطبع بیکار، اشاعت بند۔ تبلیغ کا سلسلہ مسدود آگے کی ترقی محدود کیا پچھلے ہی ٹھنڈے ہو کر کچھ بیدم اور کچھ ففرّو ہو جائیں۔ غرض کہ شہرت کا کیا کل وسائل کل صیغوں کا مدار اسی چھیڑ چھاڑ پر ہے۔ کسی کو موت کا الہام دے کر ڈرایا۔ کسی کو عزت کے زوال سے دھمکایا۔ اب اقرار کے اوپر دستخط کرنے سے یہ صیغے تو سب بند ہوئے نہ کسی کی نسبت موت نہ زوال عزت کا الہام کرتے ہیں مباحثہ میں زبان روک دی گئی۔ اس واسطے حسب صوابدید یاران محرم و مشیران خوش فہم صوفیوں کی طرف توجہ فرمائی ۔
ایک ہنگامہ پر موقوف ہے گھر کی رونق
نغمہ شادی نہ سہی نوحہ ماتم ہی سہی
۲… اس کو یہ خبر تھوڑی تھی کہ پیر صاحب لاہور میں آ ہی جائیں گے وہ تو یہ سمجھتا ہوگا صوفیاء کرام کا مسلک مرنج و مرنجان ہوتا ہے اس کو بحث و مباحثہ اور مناظرہ سے کیا تعلق اس کے اشغال و افکار ان کو اس بات کی فرصت ہی کب دیتے اور نہ وہ ان باتوں کو پسند کرتے ہیں۔ ذکر للہی پر مباحثہ کو کیوں ترجیح دینے لگے۔ ان باتوں کی طرف ان (پیر صاحب) کو توجہ ہی نہ ہوئی۔ ہماری بات بن جائے گی۔ آئو دیکھا یہی دعوت دے بیٹھا۔
۱… یہ تو یقین ہے کہ وہ مقابلہ میں نہیں آئے گا اور ضرور نہیں آئے گا۔ مگر بعد کو دیکھنا کیسے اشتہارات اور تاویلیں ہوتی ہیں۔ وہ چند صاحب گفتگو کر رہے ہیں۔ آہا یہ تو حافظ صاحب اور مفتی صاحب میں گفتگو ہو رہی۔ چلو پاس چل کر سنیں یہی معاملہ ہوگا۔ اور یہ تیسرے صاحب مولوی محمد حسن ہیں۔
حافظ صاحب… ۵؍جنوری ۱۸۹۹ء کو مرزا صاحب ایک مقدمہ فوج داری ہیں زیر دفعہ ۱۰۷ ضابطہ فوجداری بعدالت صاحب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع گورداسپور بحیثیت ملزم حاضر تھا اور اخیر تاریخ فیصلہ پر اس کو ایک مفصل اقرار نامہ بوجہ برأت لکھنا پڑا جس کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں۔۱… وہ ایسی پیشگوئی کرنے سے پرہیز کرے گا جس کے معنے یہ خیال کیے جاسکیں کہ کسی