جو مرزائی تھے چوری کی علت میں پکڑے گئے۔
۱… ارے یہاں اس نے تو تھوڑے دنوں سے غدر مچا رکھا تھا ایک بساطی کی دوکان سے بٹنوں کے بکس اٹھا کر ایک دوسرے شخص کے ہاتھ فروخت کر دیے پھر وہ پہچانے گئے مگر اس بیچارہ نے لحاظ کیا اور خاموش رہا۔
۲… ریاست جموں میں ایک دوست سے ملنے کے لیے تشریف لے گئے تھے اور اس کی ایک گھڑی اور دس روپے کا نوٹ اڑالیا۔ وہ بھی بیچارہ چپ ہوگیا۔
۳… پرسوں رات کا ذکر تو تم نے سنا ہی نہیں۔ ایک خانساماں صاحب سے ان کی بڑی گاڑھی دوستی ہو رات کو گیارہ بجے مرزائی پارٹی کی چاء پارٹی سے جب ان کو فرصت ملتی تو یہ وہاں پہنچنے اور ایک ایک دو بجے رات تک شطرنج بازی ہوتی تھی۔ بعض رات حضرت وہاں ہی آرام فرما جاتے تھے اور چند روز سے تو گویا یہ مقرر ہی کرلیا تھا کہ اب کون جائے پرسوں رات شطرنج سے فارغ ہوکر چارپائی بچھا دونوں صاحب دراز ہوگئے۔
خان صاحب… کچھ دیر تأمل اور استراحت کے بعد اٹھے اور اپنے حریف شاطر کو غافل ہوتا پا کر کنجیوں کو تکیہ کے نیچے تلاش کیا اور ان کو بہم پہنچا اور دروازہ کا قفل کھلو کر اندر داخل ہوئے اور صندوق کا قفل کھول اور نوٹ اور نقد جو نوسو روپے سے کچھ زیادہ تھا اور زیور طلائی اور نقرئی پر قبضہ کیا۔
خانساماں… رجو کی مان تم کہاں تمہارے بعد ہم کو بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا بچوں کی مٹی خراب ہوئی۔
عورت… (ایک طمانچہ رسید کرکے) تو غافل ہوتا ہے اور صندوق کی صفائی بھی ہوگئی کل کو میرے بچوں کو کھلائے گا کیا نوکری بھی چھوڑ دی۔
خانساماں… (طمانچہ کی ضرب محسوس کرکے) گھبرا کر اٹھے اور خود دروازہ کی طرف دیکھا کھلا پایا۔ کنجیوں کی جگہ ہاتھ مارا ندارد۔ آنکھ کھلی تو چاند نا تھا۔ تب خان صاحب کی چارپائی بھی خالی پائی۔ سمجھے حریف کام کر گیا۔ آگے بڑھ کر دیکھا تو خان صاحب ابھی گئے نہیں موجود ہیں۔
خان صاحب… (پائوں پر گر کر) بھائی صاحب مجھ سے خطا ہوگئی بخش دو۔ ضرورت نے بے ایمان کر دیا نوٹوں کا لفافہ اور روپیہ اور زیور کی پوٹلی آگے رکھ دی۔
خانساماں… ارے ظالم تو دو ڈیڑھ روپے روز کا کاری گر ہے۔ دو میاں بیوی کا خرچ عمدہ سے عمدہ ۴ میں نہیں اٹھ آنے میں کھانے کا انصرام ہوسکتا ہے۔ تجھ کو ایسی کیا ضرورت داعی ہوئی۔ جو اس جرم کا مرتکب ہوا۔ میرا تو صفایا کر دیا تھا۔ صبح کے کھانے کو ہی نہیں چھوڑا تھا۔ خواب میں رجو کی ماں