(خدا اس کو بخشے)نے مجھ کو خبر کی اور جگایا جو آنکھ کھل گئی۔
خان صاحب… بھائی جی جب سے میں مرزا صاحب سے بیعت ہوا میرا خرچ بڑھ گیا اور آمدن کم ہوگئی۔
خانساماں… یہ کیونکر الٹا معاملہ ان کی بیعت کی یمن و برکت سے فراخی رزق ہوتی نہ کہ عکس۔
خان… حضرت میری جماعت کے قریباً کل آدمی صبح و شام میرے مکان پر کرم فرماتے ہیں ان کی خاطر داری چاء پان تمباکو میں دو روپیہ صرف ہو جاتے ہیںاور روز روز کا چندہ آج شامیانہ مسجد خادماں کے واسطے ۵۰ اکٹھے ہوئے۔ کل حافظ غلام رسول کے واسطے ص ۵۰ جمع کرکے دیے گئے ہیں۔ کہ ان کو مقدمہ کی اپیل کرنا ہے کہیں بیت الدعاء کے کہیں توسیع مکان کے واسطے چندہ جمع ہو رہا ہے اور ماہواری لنگر اور مدرسہ وغیرہ کا معمولی چندہ مستزاد اور جب سے ہماری جماعت میں مقدمہ بازی کا صیغہ جاری ہوا ہے تب سے تو چندہ کی بھر مار نے مار ہی دیا۔ اب میری عزت اور آبرو اور جان آپ کے رحم کے حوالہ ہے۔خانساماں… نوٹ اور روپیہ اور زیور سنبھال کر اور قابو کرکے چلو اٹھو میں تمہیں کچھ نہیں کہتا مگر احتیاط رکھو۔
خان… بھائی جی تم مجھ کو ابتداء سے جانتے ہو میری آپ کی قدیمی ملاقات۔ میں بد معاش نہیں چور نہیں مگر ضرورت نے مجبور کیا۔
آنکہ شیراں را کند روبہ مزاج احتیاج است احتیاج است احتیاج
خانساماں… پھر وہی میاں تو دو روپیہ روز کا کاریگر ہے تیری دوکان بھی اچھی چلتی تھی اب کیا ہوگیا۔
خان… یہ آپ کا قیاس درست ہے مگر دوکان پر بیٹھوں تو بیشک دو روپے سے کم پیدا نہیں کرسکتا۔
خانسماں… (ہنس کر) کیا یہ بھی مرزا صاحب کی بیعت میں شرط ہے کہ اپنا کاروبار نہ کرو اور عند الضرورت لوگوں کا مال مارو۔
خان… نہیں یہ تو نہیں مگر بات یہ ہے کہ چند مدت ابتداء ابتدا میں نیا چاہو تھا نماز وغیرہ سے فرصت ملی تو وعظ میں چلے گئے یہاں روز وعظ ہوا کرتے تھے اور وعظ میں بیان ہوتا اس مسئلہ کا بیان فلاں کتاب میں ہے اسمیں دیکھو اور اس مسئلہ کو اس کتاب میں دیکھو۔ مکان پر آکر تمام دن کتاب بینی اور مطالعہ میں گزرتا جو بات سمجھ میں نہ آتی اور اکثر ایسا ہوتا۔ اس کے سمجھنے کو کبھی کسی کے پاس جا اور کسی کے پاس جاجب کسی سے تسلی نہ ہوتی تو مولوی صاحب کے پاس جا کر سمجھتے۔ غرض یونہی