ظتعالیٰ ہے۔ نافرمان بندہ کی ملکیت سے نکال کر خواہ تلف کرا دے یا کسی کو دلا دے۔
کوتوال صاحب… پھر یہ کہیے کہ ازروئے نبی کوئی گناہ نہیں پھر ایسا دین کیوں نہ اختیار کریں۔
کھٹ کھٹ کی اندر سے آوازئی آئی۔ خان صاحب اندر گئے اور ایک ٹرے (خواں) میں چاء کی پیالیاں اور دہلی کی مشین کی بسکٹوں سے بھری ہوئی دو رقاب آئے۔ گرما گرم دودھ چائے تھی سب صاحبوں نے نوش فرمائی اور جلسہ برخاست ہوا۔ اور ہمارے خان صاحب کوٹ پہنا اور ٹوپی سر پر رکھ کر ڈنڈا ہاتھ میں پکڑ کر گشت کو روانہ ہوگئے۔
صبح کا وقت ہے ابھی آٹھ تو نہیں بجے خان صاحب کے دروازہ پر پولیس موجود ہے اور مکان کے ادھر ادھر قریب قریب کچھ وردی والے داہنے ہاتھ میں ڈنڈا لیے کانسٹیبل چکر لگا رہے ہیں اور سفید پوش پولیس کے بھی جوان پہرہ دے رہے ہیں۔ اور ایک حواری مرزا صاحب بھی دروازہ پر بیٹھے ہیں۔ کیا آج ٹی پارٹی عام ہے جو احمدی جماعت کے لوگ اور ٹھاز دار پولیس کانسٹیبلان حاضر ہیں۔ دیکھیں تو چاء کا سامان تو کچھ نظر نہیں آتا ہمارے خان نیجے ملزموں کی صورت بنائے بیٹھے ہیں۔
تھانہ دار… دیکھو اس میں تمہاری بہتری ہے کہ تلاشی سے پہلے تم دے دو کو ہم اٹھ جاتے ہیں اور اگر تلاشی کے بعد تم نے اقبال کیا اور مال مسروقہ دیا اور ضرور ایسا ہوگا تو بہتر نہ ہوگا۔
خان صاحب… نہیں صاحب مجھ کو کیا خبر ہے میں چور نہیں چور کا بھائی نہیں بھلا ہم ایسا کام کرسکتے ہیں۔ ہم مرزا صاحب کے مرید۔
تھانہ دار… حضرت آپ کا مدعی بھی مرزا صاحب کا مرید ہے۔ بے الہام کے تو اس نے بھی استغاثہ نہیں کیا۔ آپ دونوں الہام لڑائو جس کا الہام غالب رہے وہی جیتے۔ کیوں حافظ صاحب (مدعی)۔
حافظ صاحب… میں تو کہتا ہوں کہ مجھ سے یہ کہہ دیں میرے پاس نوٹ اور روپیہ ہے۔ اگر ان کے پاس سے خرچ ہوگیا ہے تو مجھے رفتہ رفتہ دے دیں۔
تھانہ دار صاحب… اچھا تم جانو اپنا کیا پائو گے۔ اور انسپکٹر صاحب کے رو برو تم گئے تو سب بھول جائو گے (کانسٹیبل کی طرف مخاطب ہوکر) ان کو لے جائو اور شاہی کمرہ (حوالات) میں ان کے واسطے فرش وغیرہ کرکے رکھیے۔ جب حضرت نے حوالات کے کمرہ کی ہوا کھائی تو کل کیفیت کہہ سنائی۔ پانی کے نالے سے کمر کمر پانی میں دفن کیا ہو ابکس نکال کر اور اپنے مکان کی زمین کھود کر روپیہ اور نوٹ جو تین سو کے قریب تھا۔ حوالۂ پولیس کیا اب ہر ایک جا چرچا ہے فلاں خان صاحب